مضامین

آیت اللہ سید علی خامنہ ای۔۔۔ ایک مبارزِ حقیقی

اسلامی جمہوریہ ایرانِ کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای کی شہرت عالمِ دین کے طور پر ہے۔ انہیں فی زمانہ عالمِ تشیع کے دو سب سے بڑے علماء میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، پوری دنیا میں کروڑوں امامی اثناء عشری شیعہ دینی معاملات میں ان کے مقلد ہونے کے دعوے دار ہیں۔ لیکن۔۔۔۔ 1989ء میں جب انہیں ایران کا سپریم لیڈر چنا گیا، اس وقت ان کی شہرت عالمِ دین کے طور پر نہیں بلکہ جنگی لیڈر اور اسٹریٹجی میکر کے طور پر تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ تعلیم کے اعتبار سے سند یافتہ عالمِ دین ہی تھے، لیکن ان سے زیادہ اثر و رسوخ اور علمی قد کاٹھ رکھنے والے علماء سے قم اور نجف کے حوزہ ہائے علمیہ بھرے ہوئے تھے۔
1979ء کا انقلاب مغرب کے لیے بڑا دھچکا تھا۔ اس انقلاب کی صورت ابھرنے والے خطرے سے نمٹنے کے لیے امریکہ نے عراق کے صدر صدام حسین کو استعمال کیا، جو حال ہی میں برسراقتدار آئے تھے۔ (صدام امریکہ کے خلاف بعد میں ہوئے تھے)۔ عراق نے 1980ء میں ایران پر حملہ کر دیا اور یوں آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کا آغاز ہوا۔ سید علی خامنہ ای نے انقلاب کے بعد کچھ عرصہ وزیر دفاع کے طور پر خدمات سرانجام دیں اور پھر پارلیمنٹ کے نمائندے کے طور پر محاذ کے دورے کرتے رہے۔ 1981ء میں صدر محمد علی رجائی کے قتل کے بعد انہیں صدر بنایا گیا۔ وہ آٹھ سال تک روح اللہ خمینی کی رہبری میں ایران کے صدر رہے۔
گویا ایران عراق جنگ میں ایران کی کمان سید علی خامنہ ای کے ہاتھ میں تھی اور بطور صدر وہ اپنے وقت کا بڑا حصہ محاذ پر، مورچوں میں گزارنا پسند کرتے تھے۔ عالمی پابندیوں کے باوجود نوزائیدہ اسلامی جمہوریہ کو اسلحے کی سپلائی جاری رکھنا، معیشت کو بحال رکھنا، ایران کو مکمل عالمی تنہائی سے بچانا اور ایران عراق بارڈر پر تیل کے کنوؤں کی حفاظت، یہ سب بہت مشکل کام تھے، لیکن سید علی خامنہ ای نے کامیابی سے کیے۔ ظاہر ہے کہ اس عمل میں انہیں بہت علم اور تجربہ بھی حاصل ہوا۔ جلد وہ روح اللہ خمینی کے فیورٹ بن گئے۔ امام خمینی نے بڑے بڑے علماء کو سائیڈ لائن کرکے سید علی خامنہ ای کو وسیع اختیارات دیئے۔ جب امام خمینی کے اپنے نائب حسین علی منتظری سے اختلافات ہوئے تو عملاً صدر خامنہ ای ہی امام خمینی کے نائب سمجھے جانے لگے۔ اسی لیے امام خمینی کی وفات کے بعد ایران کی انقلابی اسٹیبلشمنٹ نے بڑے بڑے علماء کی بجائے سید علی خامنہ ای کو سپریم لیڈر چنا، اگرچہ سید علی خامنہ ای خود یہ عہدہ لینے کے خواہشمند نہ تھے اور دوبار صدارتی الیکشن لڑ کر میدانِ عمل میں متحرک رہنا چاہتے تھے۔ اس وقت دنیا میں دو ایسے لیڈر ہیں، جنہیں دفاع، انٹیلی جنس، جنگ اور اسٹریٹجی جیسے معاملات میں سب سے زیادہ تجربہ حاصل ہے اور جو ان حوالوں سے بہت ذہانت بھی رکھتے ہیں: ایک روس کے صدر پیوٹن اور دوسرے ان سے بھی بڑھ کر سید علی خامنہ ای۔ وہ اپنے پیشرو امام خمینی یا دیگر کئی شیعہ علماء کی طرح دانشور تو نہیں ہیں، لیکن اسٹریٹجک جینئیس ہیں۔ داخلی پالیسیوں کے حوالے سے ان کی الٹرا کنزرویٹو اور اتھاریٹیرئین لائن نے ایران کے اندر اسلامی و انقلابی فکر کو خاصا نقصان پہنچایا ہے اور اس رویئے کے ردعمل میں ایرانی نوجوانوں میں اسلام گریزی کافی بڑھی ہے، لیکن جن حالات اور چیلنجز میں انہوں نے اسلامی رجیم کو قائم اور ایران کو مستحکم رکھا ہے، نیز علاقائی سطح پر ایک بڑی طاقت بنایا ہے، وہ بہرحال متاثر کن ہے۔ حالیہ تاریخ میں ایسی کامیابیاں شاید ہی کسی اور لیڈر نے حاصل کی ہوں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button