طاقتور ایران، اسلامی دنیا کی آبرو
تحریر: کورش شجاعی
گذشتہ چھ ماہ سے زائد عرصے سے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم وسیع پیمانے پر فضائی بمباری کے ذریعے غزہ میں مختلف قسم کے مجرمانہ اقدامات انجام دینے میں مصروف ہے۔ اس دوران صیہونی جلادوں کے ہاتھوں تقریباً 33 ہزار بے گناہ انسان شہید ہو چکے ہیں جن میں سے 14 ہزار بچے اور خواتین تھے جبکہ 70 ہزار فلسطینی زخمی ہیں اور 9 ہزار فلسطینی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے جنگی جرائم اور فلسطینیوں کی نسل کشی کا ارتکاب تمام دنیا والوں پر ثابت ہو چکا ہے۔ اس ظالم رژیم نے غزہ میں حتی ایسے بھوکے انسانوں کا قتل عام کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جو روٹی اور پانی کیلئے لمبی لائنوں میں کھڑے تھے۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ تہذیب یافتہ ہونے اور انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کی دعویدار دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، مغربی طاقتوں، عالمی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں نے غزہ میں جاری صیہونی بربریت اور مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کی روک تھام کیلئے اب تک کوئی موثر اقدام انجام نہیں دیا ہے۔ کاش صرف اسی حد تک ہوتا لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور کچھ دیگر مغربی ممالک کے حکمران واضح طور پر اسرائیل کی حمایت کرنے اور اسے جدید ترین اسلحہ اور ہتھیار فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم امریکہ کے فراہم کردہ ممنوعہ بموں اور میزائلوں سے عام فلسطینی شہریوں کا قتل عام کرنے میں مصروف ہے۔ ایک طرف امریکہ اور مغربی ممالک اسرائیل کی بھرپور فوجی، مالی اور سیاسی حمایت کرنے میں مصروف ہیں جبکہ دوسری طرف اسلامی ممالک کی اکثریت غزہ میں بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام رکوانے کیلئے کوئی موثر اقدام انجام نہیں دے رہے۔
کچھ اسلامی ممالک ایسے بھی ہیں جن کے غاصب صیہونی رژیم سے سفارتی تعلقات ہیں اور انہوں نے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کیلئے حتی اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا فیصلہ بھی نہیں کیا۔ دوسری طرف فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے انتہائی محدود اسلامی ممالک ہیں جن میں ایران اور یمن سرفہرست ہیں۔ یمن کے حوثی مجاہدین نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے آغاز سے ہی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا اور اب تک مسلسل بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے بحری جہازوں کو ڈرون اور میزائل حملوں کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔ عالمی سطح پر فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کیلئے کچھ اقدامات انجام پائے ہیں جن میں عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ اور سکیورٹی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کی منظوری شامل ہے لیکن یہ بھی موثر ثابت نہیں ہو سکے۔
اس دوران صیہونی حکمرانوں نے تمام تر بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یکم اپریل 2024ء کے دن دمشق میں ایرانی قونصلیٹ کی عمارت کو میزائل حملوں کا نشانہ بنا ڈالا۔ ایران نے 14 اپریل کے دن "وعدہ صادق آپریشن” کی صورت میں اسرائیل کو جوابی حملے کا نشانہ بنایا جس میں سینکڑوں ڈرون طیارے اور میزائل بروئے کار لائے گئے۔ آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران نے اس حملے میں اسرائیلی فوج کے اہم ایئربیس "نواتیم” کو بھی نشانہ بنایا جو ایف 35 جنگی طیاروں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح گولان ہائٹس پر "جبل الشیخ” پر واقع اسرائیلی آرمی انٹیلی جنس یونٹ 8200 کے ہیڈکوارٹر کو بھی سپرسانک میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔ مغربی ماہرین نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ ان حملوں میں مذکورہ بالا دونوں ٹھکانوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور وہ استعمال کے قابل نہیں رہے۔
جبل الشیخ پر واقع صیہونی فوج کی یونٹ 8200 کے ہیڈکوارٹر کو "اسرائیل کی آنکھ” کے طور پر جانا جاتا تھا جہاں سے اسرائیل شام اور لبنان سمیت پورے علاقے کی جاسوسی کرتا تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے وعدہ صادق آپریشن کے بعد اعلان کیا کہ آج کے بعد دنیا کے جس حصے میں بھی اسرائیل ایران سے وابستہ مراکز یا شخصیات پر حملہ کرے گی اسے ایران سے میزائل حملوں کا نشانہ بنایا جائے گا۔ یہ درحقیقت خطے میں ایک نئی مساوات ہے جو ایک طرف اسرائیل کی ڈیٹرنس پاور ختم ہونے جبکہ دوسری طرف ایران کی ڈیٹرنس پاور میں اضافہ ہونے کی علامت قرار دی جا رہی ہے۔ وعدہ صادق آپریشن کے دوران ایران کے کروز اور بیلسٹک میزائلوں کا اسرائیل کے چند جہتی دفاعی نظام سے عبور کر کے اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنانا ایران کی برتر فوجی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ وہی اسرائیل ہے جس نے ماضی میں طاقتور ترین عرب ممالک کی فوجوں کو ایک ساتھ فوجی میدان میں شکست دی تھی۔ 1967ء میں مصر، اردن، شام اور حتی عراق اور سعودی عرب جیسے طاقتور عرب ممالک نے فوجی اتحاد تشکیل دے کر اسرائیل کا مقابلہ کرنا چاہا لیکن انہیں صرف چھ روز میں ہی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شدید شکست کے نتیجے میں نہ صرف چند عرب ممالک کی فوجیں تباہ ہو گئیں بلکہ ان کی خارجہ سیاست میں بھی یوٹرن پیدا ہوا اور انہوں نے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا راستہ چھوڑ کر مذاکرات اور سازباز کا راستہ اپنا لیا۔ مزید برآں، عرب سرزمینوں کے بڑے حصے پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ بھی ہو گیا۔ آج ایران نے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم پر اس کی تاریخ میں سب سے بڑا کامیاب میزائل اور ڈرون حملہ انجام دے کر پوری اسلامی دنیا کی لاج رکھ لی ہے اور ماضی میں تمام شکستوں کا بدلہ لے لیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طاقتور ایران پوری اسلامی دنیا کیلئے عزت اور آبرو کا باعث ہے۔