طاقت کا دانشمندانہ مظاہرہ
1۔ آپریشن "وعدہ صادق” طاقت کا ایک دانشمندانہ مظاہرہ تھا۔ طاقت کا یہ دانشمندانہ مظاہرہ عالمی امن کو مستحکم کرنے کے لیے ایک نئی گفتگو کی بنیاد بن سکتا ہے۔ امریکہ اور صیہونی حکومت نے طوفان الاقصیٰ آپریشن میں اپنی قوت مدافعت کو کمزور پایا۔ یہ کمزوری وعدہ صادق کی کارروائی میں اس طرح سچ ثابت ہوئی کہ دنیا کو معلوم ہوا کہ صیہونی ڈیٹرنس ایک وہم ہے۔ اس لیے اسلامی دنیا میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں آزاد عوام اور جنگ سے نفرت کرنے والے لوگ ایرانی قوم کی طاقت کے شاندار مظاہرے پرخوش ہوئے اور ایران کے ساتھ کھڑے ہوئے اور ایک ایسی طاقت کے ظہور کی تعریف کی، جو دنیا میں انصاف کے نفاذ کے بارے میں سوچتی ہے۔ دنیا کی نظروں میں ایران کی طاقت واضح نہ تھی، تاہم مسلح افواج نے عالمی طاقت کے طور پر ایران کی طاقت کا ایک اچھا امیج دکھایا۔
البتہ اسلام کے جنگجوو میزائل اور ڈرون لوڈ کرنے میں مصروف ہیں۔ جہاں لوگ اسلام کے مجاہدین کے خیبری حملے کے جوش و خروش سے پرجوش ہیں، وہیں اندر سے کچھ لوگ فتح کے بہانے امریکہ کے ساتھ بے نتیجہ اور بے مقصد مذاکرات کا پرچم بلند کر رہے ہیں۔ وہ یا تو امریکی جنگی جرائم اور بدنیتی کے دہرانے جائے سے ناواقف ہیں یا پھر وہ جاہل ہونے کا بہانہ کرتے ہیں! جو بھی ہو، وہ دشمن کی پچ پر کھیل رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب سفارتی میزائل استعمال کرنے کا وقت آگیا ہے۔ سفارتی میزائل جو جے سی پی او اے میں ناکام ہوئے۔
2۔ دنیا کی شیطانی طاقتیں، بالخصوص امریکہ، "خوف اور عزم” کے نظریہ کے ساتھ حکومتوں اور قوموں پر حکومت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے اتحادیوں کو بھی اس نظریئے سے جکڑ رکھا ہے۔ 1945ء اور 1968ء کی لڑائیوں کے بعد صیہونی حکومت نے عربوں کو اس نظریئے سے جکڑ لیا اور انہیں مقبوضہ سرزمین پر ایک گولی بھی چلانے کی اجازت نہ دی، خاص طور پر 6 روزہ جنگ کے بعد۔ مزاحمتی محاذ کی تشکیل، خاص طور پر حزب اللہ کی 33 روزہ جنگ کے بعد اور مقبوضہ علاقوں میں حماس اور اسلامی جہاد کے درمیان پنگ پانگ جھڑپوں کے بعد اور سب سے اہم بات یہ کہ طوفان الاقصیٰ نے خوف اور تصمیم کے نظریئے کو ہلا کر رکھدیا۔ اس نقطہ نظر نے "خوف اور عزم” کے نظریہ کی فعالیت کو تباہ کر دیا اور غزہ میں صیہونی حکومت کو 190 دنوں سے زیادہ عرصے تک پھنسا کر رکھ دیا۔
غزہ کے عوام خوفزدہ نہ ہو کر آخری سانس تک مزاحمت کا سنجیدہ فیصلہ کرچکے ہیں اور اسی سانس نے صہیونیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ وعدہ صادق کے دانشمندانہ عمل نے ظاہر کیا کہ وعدہ صادق امریکہ اور صیہونی حکومت کو اب "خوف اور عزم” کے نظریئے کے تنور میں اپنی تسلط کی روٹی نہیں پکانے دے گا۔ خوف ایک ذہنی تعطل ہے، جو بھی اس کے جال میں پڑتا ہے، اسے بیک وقت ناکامی کا پہلا اور آخری مرحلہ دیکھنا پڑتا ہے۔ اب صیہونی حکومت اس جال میں پھنس چکی ہے۔ وہ غزہ میں جنگ جاری رکھنے یا جنگ بندی کے لیے حماس کی شرائط کو قبول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ صیہونی حکومت وعدہ صادق کارروائی کا جواب دیتی ہے یا نہیں، وہ "خوف اور فیصلہ” کے نظریئے کے جال میں پھنس رہی ہے۔
3۔ اپنی 250 سالہ زندگی میں امریکہ ہمیشہ اندر اور باہر کی دنیا کے ساتھ جنگ میں رہا ہے۔ اس نے صرف 21 سال امن کا تجربہ کیا ہے۔ امریکی صدور میں سے کوئی بھی مکمل طور پر امن کے دور کا صدر نہیں رہ سکا۔ امریکی سیاسی فلسفیوں اور سیاسی تھنک ٹینکس کو ایک دن اس سوال کا جواب دینا پڑے گا کہ ان جنگوں کا انجام کہاں ہے۔؟ اگر وہ جنگ بند نہیں کرتے تو دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو امن کے لیے لڑیں گے اور خونریزی، قتل عام، جنگی جرائم اور جنگی قتل و غارت گری کا خاتمہ کریں گے۔
4۔ میڈیا، تھنک ٹینکس اور سیاست دان سرمایہ دارانہ مغرب میں حکمران جماعت کے تین فریق ہیں، تینوں فریق ان دنوں یہ شور مچا رہے ہیں کہ دنیا اس سمت میں جا رہی ہے، جو ان کے حق میں نہیں ہے۔ یہ فہم مستقبل کی تحقیق اور دور اندیشی کے لحاظ سے موجود ہے کہ وقت کا پہیہ ان کے حق میں نہیں گھوم رہا ہے۔ امریکہ اور سرمایہ دارانہ دنیا کی بعض ریاستوں میں غربت ایسی ہے کہ شہروں میں لوگ رات کو سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں، ان شہروں کے میئرز چیخ رہے ہیں کہ وہ صبح کے وقت سڑکوں پر سونے والوں کا کچرا نہیں اٹھا سکتے۔ دوسری طرف امریکی ایوان نمائندگان نے اسرائیل کو 26 بلین ڈالر کی امداد اور یوکرین کو 60 بلین ڈالر کی امداد کی منظور دی ہے۔ حکمرانوں کا یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اس پر نہ صرف توجہ نہیں دیتے بلکہ وہ اپنے شہریوں کی آواز بھی سننا نہیں چاہتے۔
تحریر: محمد کاظم انبارلوی