یوم نکبہ، فلسطینیوں کی گھروں کو واپسی کی تحریک
تحریر: ارشاد حسین ناصر
15 مئی سنہ1948ء کے دن سے لیکر آج تک جب چھہتر برس گزر چکے ہیں، فلسطینی اپنی زمینوں، گھروں، شہروں، دیہاتوں میں واپسی کی راہ تک رہے ہیں، ان کا یقین ہے کہ ایک دن وہ اپنے گھروں کو لوٹیں گے، اپنی قبضہ کی گئی زمینیں واپس لیں گے، اپنے کھیت خود اگائیں گے، اپنے اس خواب کی عملی تعبیر کیلئے وہ مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس دن جب وہ اپنے گھروں، اپنے وطن، اپنی آبائی زمینوں سے زبردستی بے دخل کیے گئے، اس دن کو یوم نکبہ کہتے ہیں، یعنی واپسی کا دن۔ وہ کبھی بھی نہیں بھولتے کہ اس دن عالمی استعمار بالخصوص امریکہ، برطانیہ اور فرانس اور دیگر یورپی ممالک نے ان کی مقدس سرزمین فلسطین میں دنیا بھر سے اکٹھے کیے گئے غاصب صیہونی آبادکاروں کے لئے اسرائیل نام کی ایک ناجائز ریاست کو وجود بخشتے ہوئے ایک ایسا مسئلہ کھڑا کیا، جو آج تک حل طلب ہے اور جس کی وجہ سے کئی جنگیں ہوچکی ہیں نا جانے کیا کچھ مزید ہو گا۔
یوم نکبہ ہی وہ دن ہے کہ جس روز عالمی استعمار اور اس کے زرخرید غلاموں نے امت مسلمہ کے قلب میں خنجر گھونپتے ہوئے ایک ہی دن میں غاصب صیہونی آبادکاروں کے ذریعے ارض فلسطین کے پندرہ لاکھ مقامی فلسطینیوں کو ان کے آبائی و خاندانی گھروں سے بے دخل کرکے ان کے وطن یعنی فلسطین سے جبری طور پر جلا وطن کر دیا، ان بے دخل کیے گئے فلسطینیوں کو مجبور کیا گیا اور انہیں ناجائز طور پر اپنے گھر اور وطن کو چھوڑ کر فلسطین کی سرحد سے متصل لبنان، شام، اردن اور مصر کے علاقوں میں چلے جانے پر مجبور کیا گیا، ان ممالک میں فلسطینیوں کی کئی نسلیں جوان ہوئیں مگر ان کے ذہن و فکر سے ان کی آبائی زمینیں، گھر بار، کھیت کھلیان اور مقدس سرزمین نہیں نکلی، یہ اپنی نسلوں کو واپسی کے خواب آنکھوں میں سجاتے رہے، فلسطینی مائیں مہاجر کیمپوں میں جنم لینے والے اپنے فرزندوں کو ظلم کی داستانوں کے قصے سناتی رہیں اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
تاریخ کے جھروکوں سے اس دن یعنی یوم نکبہ کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسی دن غاصب صیہونیوں نے بوڑھے استعمار برطانوی جدید اسلحہ اور حکومت کی مدد سے پورے فلسطین کے چھ سو سے زیادہ دیہاتوں اور قصبوں میں کھلے عام قتل عام کیا اور ہزاروں فلسطینیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، 5.9 ملین فلسطینی پناہ گزین آج مغربی کنارے، غزہ کی پٹی، اردن، لبنان اور شام میں مہاجر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ 760000 فلسطینیوں میں سے کچھ ابھی تک زندہ ہیں، جو بے گھر ہوئے یا بھاگنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ سنہ 1948ء کی جنگ کے بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کی نقل مکانی دیکھنے میں آئی تھی۔
ناجائز وجود اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں نے لڑائیوں کے دوران رضاکارانہ طور پر اپنے گاؤں چھوڑے تھے۔ اسرائیل فلسطینیوں کے قتل عام کے الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق "نکبہ” کے دوران سینکڑوں فلسطینی دیہات تباہ کیے گئے، اس دوران 760000 سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔ فلسطینی ماہر تعلیم ولید الخالدی نے 400 سے زائد دیہات کی تباہی یا نقل مکانی کا ریکارڈ مرتب کیا ہے، جبکہ اسرائیلی تنظیم زوکروٹ (Zochrot) کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے قیام کے وقت چھ سو فلسطینی گاؤں یا قصبے تباہ ہوئے۔ اس ظلم اور سفاکیت و بربریت کی یادوں کے زخم آج تک مندمل نہیں ہوسکے بلکہ ہر گزرتے دن کیساتھ ان سے خون رسنا اور ظلم و ستم کی نئی داستانوں کو وجود میں لانا معمول بن چکا ہے۔
فلسطینی اس دن کو واپسی کے دن کے طور پہ مناتے ہیں، اپنے گھروں کو واپسی کے حق کیساتھ یہ اس دن گھروں سے باہر نکلتے ہیں، دنیا کو اپنے اس حق سے روشناس کرواتے ہیں اور اس دن ان کے ہاتھوں میں ایک چابی ہوتی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ وہ اپنے گھروں کے قفل آکر کھولیں گے۔ دراصل ان مہاجر و بے دخل کر دیئے گئے خاندانوں کے پاس وہ چابیاں موجود ہیں، جو ان کے بڑوں کو ان کے گھروں سے نکالتے وقت ان کے مکانات کے قفل کو لگائی جاتی تھیں، یہ نسل در نسل منتقل ہوئی ہیں۔ پچھتر برس ہونے کے بعد بھی یہ نسلیں اپنے واپسی کے حق سے دستبردار نہیں ہوئیں، یوم نکبہ یعنی مقدس سرزمین کے اصل وارثوں کا اپنے گھروں کی جانب واپس آنا، نہ صرف ایک خواب ہے، بلکہ ایک جہد مسلسل کی علامت ہے، نہ صرف ایک نعرہ اور شعار ہے بلکہ ایک عملی جدوجہد اور تاریخ ساز جہد مسلسل کی داستان شجاعت و استقامت بھی ہے۔
شجاعت کی ایسی داستانیں ان بے گھر کر دیئے گئے فلسطینیوں نے رقم کی ہیں کہ دنیا آج تک مسئلہ فلسطین کو تمام تر سازشوں کے باوجود فراموش نہیں کرسکی، بلکہ مہاجر کیمپوں میں جنم لے کر محرومیوں میں پل بڑھ کر جوان ہونے والے فرزندان قبلہ اول و سرزمین مقدس نے ایسی تحریکوں کو جنم دیا کہ آج دنیا انہیں حماس کے نام سے پہچانتی ہے، آج دنیا کے سامنے جہاد اسلامی کا ایک نام ہے، آج دنیا میں فلسطینی مقاومت و مزاحمت نے اپنی عظیم قربانیوں کی بدولت اور تاریخی جدوجہد نیز استقامت سے اپنے حق کے حصول کی جدوجہد کو اس مرحلے پر لاکھڑا کیا ہے کہ اب ان قربانیوں کا حاصل ملنے کو دیکھا جا سکتا ہے، بالخصوص آج سات اکتوبر 2023ء کے اسرائیل پر حملے، یلغار اور کارروائیوں کے نتیجہ میں اسرائیل مکڑی کے جالے سے کمزور دیکھا گیا ہے۔
اس کا سارا رعب و دبدبہ، اس کی سفاکیت، اس کی ظلم و بدمعاشی ایک طرف حماس کے چند لوگوں نے اس کو اس مرحلے پہ لاکھڑا کیا کہ دنیا بھر کے آزادی پسند، انسانی کرامت، حقوق بشر اور ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے والے اہل مغرب کو بھی ان کی حمایت میں باہر نکلنا پڑا ہے، اسرائیل نے جس طرح سات اکتوبر کے بعد سفاکیت و درندگی دکھائی ہے، اس کے بعد دنیا بھر کی طرح اہل مغرب عوام نے میدان سجائے ہیں کہ اب یہ مسئلہ اپنے منطقی حل کی جانب بڑھتا دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ اس وقت امریکہ و دیگر کئی ایک ممالک میں یونیورسٹیز کے طلباء کی تحریک نے جتنا زور پکڑا ہے، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے، اس بار یوم نکبہ میں فقط فلسطینی میدان میں نہیں ہیں بلکہ دنیا بھر کے آزادی پسند فلسطینیوں کے اس بنیادی ترین حق واپسی کیلئے میدان میں حاضر ہیں۔
پاکستان میں یوم نکبہ کو قائد شہید علامہ سید عارف الحسینی کے فرمان پر سولہ مئی کو منایا جاتا ہے، جو امام خمینی اس فکر و فرمان کا غماض ہے کہ مسلمانوں کی تمام تر مصیبتوں کا ذمہ دار امریکہ ہے، جو برائی کی اصل جڑ ہے۔ امریکہ، اسرائیل کا سرپرست و مدافع و معاون ہے، جس کا اسلحہ و امداد اور عالمی اداروں بالخصوس اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ہر قرارداد کو ویٹو کرتا آیا ہے، ہم 16 مئی یوم مردہ باد امریکہ بھی مناتے ہیں اور پندرہ مئی یوم نکبہ کے دن بھی اسرائیل کے چہرے سے نقاب الٹنے کیلئے میدان سجاتے ہیں، اصل تو فلسطینی مقاومت اس دن کو اپنی کارروائیوں کے ذریعے مناتی ہے، جس کا اپنا ہی لطف ہے۔