مضامینہفتہ کی اہم خبریں

کسے شرمندہ ہونا چاہئے؟

تحریر: سید محمد امین آبادی

غزہ جنگ کے آغاز کو 223 دن ہونے والے ہیں اور اس دوران عالمی رائے عامہ کے 95 فیصد سے زیادہ حصے کی اسرائیلی جرائم کی مخالفت نیز عالمی سطح پر یونیورسٹی طلبہ اور عام لوگوں کی جانب سے وسیع احتجاج بھی اب تک غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات روکنے میں موثر ثابت نہیں ہو سکے۔ گذشتہ ہفتے جمعہ (10 مئی) کے دن جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت سے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کے حق میں ووٹ دیا تو اقوام متحدہ میں اسرائیل کی جعلی رژیم کے نمائندے گیلعاد آرادن نے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے سب کے سامنے اسٹیج پر جا کر توہین آمیز انداز میں اقوام متحدہ کا منشور ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ ساتھ ہی اس نے جنرل اسمبلی میں ایسے تمام رکن ممالک کو مخاطب قرار دیتے ہوئے جنہوں نے فلسطین کی مستقل رکنیت کے حق میں ووٹ ڈالا تھا، کہا: "شیم آن یو”۔

لیکن جب ہم غزہ جنگ میں فریقین کے اقدامات اور صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ کسے شرمندہ ہونا چاہئے۔ اس بارے میں درج ذیل نکات پر توجہ کریں:
1)۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی انسانی حقوق کاونسل اور سلامتی کاونسل نے 1947ء سے لے کر اب تک مجموعی طور پر فلسطین اور غاصب صیہونی رژیم سے متعلق 512 سے زیادہ قراردادیں منظور کی ہیں۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق صرف سلامتی کاونسل ہی مسئلہ فلسطین اور غاصب صیہونی رژیم کی صورتحال کے بارے میں 225 قراردادیں منظور کر چکی ہے۔ ان میں سے 102 سے زائد قراردادوں میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے انجام پانے والے انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف اقدامات کی مذمت کی گئی ہے۔ اگرچہ امریکہ 1972ء سے لے کر نومبر 2023ء تک سلامتی کاونسل میں اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی کم از کم 55 تنقید آمیز قراردادیں ویٹو کر چکا ہے۔

اسی طرح اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی بھی غاصب صیہونی رژیم اور فلسطینی ریاست کی صورتحال کے بارے میں 183 سے زیادہ قراردادیں منظور کر چکی ہے اور امریکہ نے اس تمام قراردادوں کی مخالفت کی ہے۔ اس بارے میں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی رژیم جس نے نہ صرف جنرل اسمبلی، سلامتی کاونسل اور اقوام متحدہ کے دیگر ذیلی اداروں نیز دنیا میں انسانی حقوق کے دیگر ذمہ دار اداروں کی جانب سے منظور کی گئی سینکڑوں قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کیا بلکہ ان اداروں اور تنظیموں کے اہداف کے خلاف عمل کیا ہے، کیا وہ یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ ایک مظلوم قوم کے حقوق کے حامیوں کو کہے: شیم آن یو؟

2)۔ غزہ جنگ میں اب تک 1 لاکھ سے زیادہ فلسطینی شہید اور زخمی جبکہ 10 لاکھ سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ 10 ہزار فلسطینی اب تک تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ اسی طرح شہید ہونے والے فلسطینیوں کا 70 فیصد حصہ بچوں اور خواتین پر مشتمل ہے۔ غزہ کے 17 ہزار بچے ایسے ہیں جن کے والدین، والد یا والدہ اسرائیلی بربریت میں شہید ہو چکے ہیں۔ 485 فلسطینی شہداء کا تعلق میڈیکل عملے سے ہے۔ جنگ کے دوران 140 سے زیادہ صحافی بھی شہید ہو چکے ہیں۔ 11 ہزار زخمیوں کو علاج کیلئے غزہ سے باہر منتقل کیا جا چکا ہے جبکہ غزہ میں موجود 10 ہزار کینسر کے مریض موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ 10 لاکھ 90 ہزار فلسطینی شہری جلاوطنی کی زندگی کے باعث وائرل بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ میڈیکل سہولیات نہ ہونے کے باعث غزہ میں تقریباً 60 ہزار حاملہ خواتین شدید خطرناک صورتحال سے دوچار ہیں۔

خطرناک بیماریوں میں مبتلا 3 لاکھ 50 ہزار فلسطینی مریض ایسے ہیں جو غزہ میں دوائیوں کی عدم فراہمی کی وجہ سے موت کے دہانے پر ہیں۔ اقوام متحدہ کہتی ہے کہ ایسی خواتین جو زندہ بچی ہیں وہ جلاوطنی کا شکار ہیں اور بھوک اور قحط سے روبرو ہیں۔ اقوام متحدہ کے بقول غزہ میں 10 لاکھ سے زیادہ خواتین اور بچیاں "شدید بھوک” کا شکار ہیں اور کھانے پینے کی اشیاء اور صاف پانی نہ ہونے نیز صحت کی بری صورتحال کے باعث ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں ہر دس منٹ میں ایک بچہ زخمی یا شہید ہو رہا ہے۔ گیلعاد آرادان ایسی رژیم کا نمائندہ ہے جو بچوں اور خواتین کو قتل کر رہی ہے، صحافیوں کو قتل کر رہی ہے، اسکولوں، مساجد اور اسپتالوں پر حملے کر رہی ہے اور شہید ہونے والے فلسطینیوں کے جسد خاکی کی بے حرمتی کرتی ہے اور بچوں اور خواتین کے خلاف بھوک کو اسلحے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ایسی رژیم کے نمائندے کو شرم محسوس کرنی چاہئے نہ یہ کہ وہ اقوام متحدہ کے فورم پر آ کر اس کا منشور ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔

3)۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس رژیم کے کچھ دیگر عہدیداران پر گذشتہ 7 ماہ کے دوران غزہ میں وسیع مجرمانہ اقدامات انجام دینے کی خاطر فلسطینی قوم کی نسل کشی کا الزام عائد کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ممکن ہے عالمی عدالت انصاف انہیں اشتہاری قرار دے دے۔ یہ مسئلہ صیہونی میڈیا میں اس قدر اہم قرار دیا گیا ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ کے بقول اسرائیلی حکام جو بائیڈن سے عالمی عدالت انصاف میں اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے اس تاریخی رسوائی سے بچانے کی منتیں کر رہے ہیں۔ معاریو اخبار جیسے صیہونی ذرائع ابلاغ نے لکھا ہے کہ نیتن یاہو عالمی عدالت انصاف کے ممکنہ فیصلے سے شدید پریشان ہے اور گرفتاری سے بچنے کیلئے ہاتھ پاوں مار رہا ہے۔ معاریو کے مطابق صیہونی وزیر جنگ یوآو گالانت اور صیہونی چیف آف آرمی اسٹاف ہرتزے ہالیوے بھی اشتہاری قرار پانے کی فہرست میں شامل ہیں۔ ایسی رژیم کا نمائندہ کس طرح اخلاق کی آڑ میں دوسروں کو شیم آن یو کہہ سکتا ہے؟

4)۔ گذشتہ 7 ماہ میں اسرائیل نے غزہ میں جو ہولناک جرائم انجام دیے ہیں ان کے باعث دنیا بھر کی رائے عامہ فلسطین کی حمایت اور اسرائیلی جرائم کی مذمت کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ سے لے کر یورپ، افریقہ، ایشیا اور آسٹریلیا تک دنیا کے پانچ براعظموں میں گذشتہ سات ماہ کے دوران ہر مذہب، رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے کروڑوں انسان غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کی مذمت کر چکے ہیں۔ حتی امریکہ جیسے ملک میں بھی جو روایتی طور پر اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کا حامی سمجھا جاتا ہے، یونیورسٹی طلبہ اور اساتید نیز عوام میں انجام پانے والے سرویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فلسطین کاز اور نہر سے بحر تک فلسطین کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہاں اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ ایسی رژیم کا نمائندہ جو دنیا بھر کے عوام کی نظر میں منفور ہو چکی ہے، کیسے خود کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ دوسروں پر بے شرمی کا الزام لگائے؟ اور موجودہ حالات کے تناظر میں کس فریق (فلسطین یا اسرائیل) کو شرم محسوس کرنی چاہئے؟ ایسی قوم کو جو اپنی آزادی کیلئے لڑ رہی ہے یا ایسی رژیم کو جو اپنے ناجائز وجود کے بقا کیلئے غصب شدہ سرزمین پر نسل کشی میں مصروف ہے؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button