ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
حسین امیر عبداللہیان 3 اپریل 1964ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی عمر تقریباً چھ سال تھی، جب انکے والد مرحوم ہوگئے اور وہ یتیم ہوگئے۔ ان برسوں میں آپ نے اپنے خاندان کے ساتھ مشکل اور سادہ زندگی گزاری۔ والد کی وفات کے بعد زندگی کی مشکلات میں اضافہ ہوا، لیکن وہ ہمیشہ مستقبل سے پرامید رہتے تھے۔جب ایران کا اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو ان کی عمر چودہ پندرہ سال تھی اور تمام انقلابی نوجوانوں کی طرح ان کے اندر بھی انقلابی اور سماجی امور میں حصہ لینے کا ایک خاص جذبہ اور جوش موجود تھا۔ جب انہوں نے یونیورسٹی جانے کا فیصلہ کیا تو وہ سب سے پہلے لیبارٹری کے شعبے میں یونیورسٹی میں قبول ہوئے، لیکن یہ وہ نہیں تھا، جس کی انہیں تلاش تھی۔
وہ اسلامی انقلاب کے لیے اہم کام کرنا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے یہ مضمون ترک کر دیا اور اگلے سال دوبارہ یونیورسٹی کے داخلے کا امتحان دیا اور اس بار انھیں وزارت خارجہ کے سفارتی تعلقات کے شعبے میں داخلہ مل گیا۔اس کے بعد، آپ نے تہران یونیورسٹی میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی سطح پر بین الاقوامی تعلقات کی تعلیم حاصل کی اور یوں آپ ایران کی خارجہ پالیسی میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہوئے۔ حسین امیر عبداللہیان کی پہلی سیاسی ذمہ داری بغداد میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے میں ماہر اور سیکرٹری کے طور پر تعیناتی تھی۔ اس کے بعد 2002ء میں وہ عراقی امور میں وزیر خارجہ کے نائب اور خصوصی نمائندے بن گئے۔
پانچ سال بعد جب عراق کی بعث حکومت کا خاتمہ ہوا تو امریکہ کی درخواست پر عراق کو محفوظ بنانے کے لیے ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس ملاقات میں "امیر عبداللہیان” ایرانی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ تھے۔ انہوں نے بعد میں ان مذاکرات کے بارے میں کہا: "مذاکرات کے آغاز میں، امریکیوں نے سوچا کہ وہ اس ملاقات کا ایجنڈا خود طے کریں، لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی اور یہ طے پایا کہ اجلاس کے ایجنڈا کا تعین فریقین کی رضامندی سے ہوگا۔” "جب امریکیوں نے منطقی بات سنی اور ان کے پاس کوئی منطقی جواب نہیں تھا تو وہ اپنی ضد سے پیچھے ہٹ گئے۔” البتہ یہ امریکیوں کی برتری اور تکبر کا رویہ تھا، جس کی وجہ سے یہ مذاکرات کئی ملاقاتوں کے بعد بھی ناکام ہوئے۔
اسی سال، حسین امیر عبداللہیان نے بحرین میں ایران کے سفیر کے طور پر اپنا کام شروع کیا اور دو سال بعد 2009ء میں ایران میں 10ویں حکومت کے آغاز کے ساتھ، وہ عرب اور افریقی ممالک کے نائب وزیر خارجہ بن گئے۔ انہوں نے یہ ذمہ داری بارہویں حکومت یعنی صدر روحانی کے دور صدارت کے آغاز تک نبھائی۔ان تمام سالوں میں ان کا خاص کام دہشت گرد گروہوں کی افزائش سے نمٹنا تھا، لیکن خطے میں داعش کے بڑھنے سے ان کا کام پہلے سے زیادہ ہوگیا۔ شہید نے ISIS کے خلاف لڑنے کے لیے ایران کی قدس فورس کے کمانڈر شہید حاج قاسم سلیمانی کے ساتھ مل کر کام کیا اور آہستہ آہستہ ان کی پوزیشن اور شہرت مزاحمتی ممالک اور خطے کی انقلابی قوتوں کے لئے ایک مستعد اور فعال سفارت کار کے طور پرہوئی۔
کئی بار ایسا ہوا کہ حاج قاسم سلیمانی بغیر پیشگی اطلاع کے وزارت خارجہ چلے آتے اور علاقائی مسائل پر حسین امیر عبداللہیان سے مشاورت کرتے۔ خارجہ پالیسی کے بعض صحافی انہیں سفارت کاری کا قاسم سلیمانی کہتے ہیں۔ حسین امیر عبداللہیان وزارت خارجہ کے ہر عہدے پر سردار سلیمانی سے رابطے میں رہے۔ ان کی ملاقاتیں بغیر کسی تکلف اور پروٹوکول کے ہوتی تھیں اور یہی سادگی اور بےتکلفی ان دونوں کو دشمن کے مقابلے میں قریب لانے کا باعث بنی۔ حسین امیر عبداللہیان کی جانب سے ایران کے نائب وزیر خارجہ کا عہدہ قبول کرنے کے ایک سال بعد شام میں داعش کی جنگ شروع ہوئی، داعش شام میں داخل ہوچکی تھی اور خطے کے عدم تحفظ کے لیے خطرہ بن رہی تھی۔
حسین امیر عبداللہیان اور حاج قاسم کے درمیان تعاون پہلے سے زیادہ ہوگیا اور وہ میدان جنگ اور اس معرکے کے بیچ کئی بار ایک دوسرے سے ملے اور خطے کی سلامتی بحال کرنے کی کوشش کی۔ امیر عبداللہیان سفارتی میدان میں اور حاج قاسم فوجی میدان میں نبرد آزما رہے۔ دونوں کی سفارت کاری کا مقصد خطے میں استحکام اور سلامتی پیدا کرنا، ایران کے لیے زیادہ سے زیادہ قومی سلامتی فراہم کرنا اور خطے میں عدم تحفظ کے ایک عنصر کے طور پر صیہونیت کی ترقی کے راستے میں بند باندھنا تھا۔ حسین امیر عبداللہیان نے شام کی جنگ کی اپنی یادوں کو "صبح شام” نامی کتاب میں شائع کیا ہے، جو شام کی جنگ کا پہلا اور مکمل تجزیہ ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے شہید قاسم سلیمانی کے ساتھ اپنے تعاون کی بہت سی یادیں شیئر کی ہیں اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا ہے۔
امیر عبداللہیان نے اس کتاب کے ایک حصے میں لکھا ہے: "شامی تنازعہ کے عروج کے دنوں میں، میں شام کے صدر بشار الاسد سے ملنے کے لیے دمشق گیا تھا، وہاں جنرل سلیمانی نے ایک اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ شہید حاج قاسم کے ہیڈ کوارٹر کی طرف جانے والا راستہ بہت خوفناک تھا، اتنا خوفناک تھا کہ میں سمجھا حاج قاسم سے نہیں داعش سے ملنے جا رہا ہوں۔ چاروں طرف داعش کا محاصرہ تھا اور شہر کے تباہ شدہ مکانات میں سے ایک کے زیر زمین حصے میں شہید جنرل سلیمانی سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں چند شامی افسران اور حزب اللہ کے مجاہدین سے بھی ملاقات ہوئی، جو شام کے اس علاقے کو داعش سے چھڑانے کے لیے آپریشن میں مصروف تھے اور ان کی کمانڈ حاج قاسم کر رہے تھے۔ اس مشکل صورتحال میں حاج قاسم بالکل پرسکون تھے اور اپنے آس پاس کے لوگوں تک نہ صرف سکون پہنچا رہے تھے بلکہ ہلکا پھلکا مذاق بھی کر رہے تھے۔
گرمیوں کا موسم تھا اور شہید سلیمانی کے سامنے پھلوں کی ٹرے پڑی تھی۔ میں نے دیکھا کہ پھلوں کے ایک پیالے میں انجیر ہیں۔ میں، جو ایک گاؤں میں پیدا ہوا تھا اور انجیر پسند کرتا تھا، جب میں شہید سلیمانی سے بات کر رہا تھا تو میں نے لگاتار چار یا پانچ انجیر کے دانے کھائے۔ گفتگو کے دوران سردار سلیمانی نے قریب ایک ساتھی سے دوبارہ انجیر لانے کا حکم دیا۔ میں نے پھلوں کے پیالے کی طرف دیکھا تو دیکھا کہ صرف دو انجیر باقی ہیں۔ میں نے سردار سلیمانی سے کہا گویا میں نے سب کچھ کھا لیا، آپ کے لیے کچھ نہیں بچا۔ حاج قاسم نے مسکراتے ہوئے کہا، "نہیں، میں انجیر نہیں کھاتا، میں نے دیکھا کہ آپ کو انجیر بہت پسند ہے، آپ کے لئے مزید انجیر لانے کا کہا ہے۔شہید نے اصرار کیا اور میں نے مزید انجیر کھائی۔”
اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے، حسین امیر عبداللہیان نے سردار سلیمانی کے عظیم جذبے کی طرف اشارہ کیا اور ان کے طرز عمل میں نرمی، شائستگی اور ان کے محمدی اخلاق کی تعریف کی۔ ایک ایسے اخلاقیات جس کے بارے میں ان کے سب دوست بیان کرتے ہیں۔ ان کے تمام ساتھی انہیں ان کی شائستگی، احترام، مہربانی اور تحمل کی وجہ سے جانتے ہیں۔ وہ عیش و عشرت، تکبر اور دوسروں پر فوقیت رکھنے والا شخص نہیں تھا۔ وہ اپنے ماتحتوں سے اپنے بھائیوں جیسا سلوک کرتے تھے اور اپنے ذاتی مفادات کو قوم کے مفادات پر کبھی ترجیح نہیں دیتے تھے۔
حسین امیر عبداللہیان سردار سلیمانی کے انتہائی قابل بھروسہ دوست تھے اور یہی وجہ تھی کہ سید ابراہیم رئیسی کی حکومت کے آغاز کے ساتھ ہی وہ ایران کے وزیر خارجہ منتخب ہوئے۔ تقریباً تین سال تک جاری رہنے والے اس عرصے میں انہوں نے پڑوسیوں اور ایشیائی ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر زور دیا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ یورپ سے تعلقات منقطع کرنا چاہتے تھے۔ تاہم ان کے اور ان کے ساتھیوں کے لیے یورپ صرف ان تین ممالک انگلستان، فرانس اور جرمنی تک محدود نہیں تھا، جو مکمل طور پر ایران مخالف رویہ رکھتے ہیں۔ ایشیائی اور افریقی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو وسعت دے کر اور اس میدان میں ایران کی سفارت کاری کو فعال کرکے وہ ایران پر عائد پابندیوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کو کم کرنے اور یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات کے لیے نئی شرائط فراہم کرنے کے لیے شاندار اقدامات کرنے میں کامیاب رہے۔
غزہ میں جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی حسین امیر عبداللہیان دنیا میں مزاحمت کی آواز بن گئے۔ ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے غزہ میں جنگ روکنے کے لیے اسلامی ممالک میں کئی اجلاس منعقد ہوئے۔ انہوں نے غزہ کے بچوں اور عورتوں کی فریادوں کو لوگوں تک پہنچایا اور دنیا کو نیند سے جگایا۔ حسین امیر عبداللہیان خارجہ پالیسی کے میدان میں مزاحمت کے سپاہی تھے، ان کی طاقتور سفارت کاری بین الاقوامی میدانوں میں دوستوں اور دشمنوں میں مشہور تھی اور وہ جدت پسند اور عالمی معیشت کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں مشغول رہے۔
مئی 2024ء کے آخر میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی سفارت کاری نے انہیں ایران اور جمہوریہ آذربائیجان کی سرحد تک پہنچا دیا۔ وہ اس سفر میں ایران کے صدر کے ہمراہ تھے۔ وہ ایران اور جمہوریہ آذربائیجان کے درمیان مشترکہ ڈیم کے منصوبے کا افتتاح کرنے کے لیے سرحد کے زیرو پوائنٹ پر گئے، جہاں انہوں نے آذربائیجان کے صدر الہام علیوف سے ملاقات کی اور مشترکہ طور پر ڈیم کا افتتاح کیا۔ یہ ڈیم 2 ارب کیوبک میٹر پینے اور زرعی پانی، 270 گیگا واٹ بجلی اور 40,000 افراد کو روزگار فراہم کرے گا۔ یہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے مشرقی آذربائیجان صوبے کے سفر کی کامیابیوں میں سے صرف ایک کامیابی تھی۔ ایک ایسا سفر جو ختم نہ ہوا اور وہ نہ ہی اس سفر سے واپس آئے۔ موسم دھند آلود تھا اور فضائی سانحے میں ہیلی کاپٹر میں آگ لگ گئی اور حسین امیر عبداللہیان ایران کے پہلے شہید وزیر خارجہ بن گئے۔
حسین امیر عبداللہیان تمام اچھی چیزیں ایک ساتھ چاہتے تھے، وہ چاہتے تھے، خدا کی راہ میں زندگی بھر کی نہ ختم ہونے والی کوششوں کا ایک عظیم اور نہ ختم ہونے والا انعام انہیں ملے۔ ان کے قائم مقام ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ علی باقری کنی نے شہید امیر عبداللہیان کی مجلس ترحیم میں شرکت کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہم شہید امیر عبداللہیان کی خارجہ پالیسی کے شعبے میں کامیابی اور ان کارکردگی کی سطح جاننا چاہیں تو میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس کے لئے ہمیں بہت زیادہ تحقیق کی ضرورت نہیں، بس اتنا کافی ہے کہ اس حکومت کے ابتدائی حالات اور جناب امیر عبداللہیان کی بطور وزیر خارجہ فعالیت کے آغاز کا موازنہ خطے کے موجودہ حالات سے کیا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ شہید عبد اللہیان نے کس قدر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت کے آغاز میں خطے کے کچھ ممالک سے ہمارے تعلقات منقطع ہوگئے تھے اور ہم کچھ ممالک کے ساتھ تناؤ کا شکار تھے، لیکن آج خطے کے صرف ایک ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات منقطع ہیں، جنہوں نے کل ماسکو میں ہمارے ملک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور دو دن پہلے، تعزیت کے لئے اپنا وزیر خارجہ تہران بھیجا، جو تعلقات کی بحالی کا عندیہ ہے۔ (ان کا اشارہ بحرین کی طرف ہے) باقری کنی نے تاکید کی کہ میری رائے میں نہ صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ شہید امیر عبداللہیان ایک کامیاب وزیر اور کامیاب خارجہ پالیسی کے مالک تھے بلکہ وہ خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کے میدان میں بھی اعلیٰ درجے کا کام وراثت میں چھوڑ گئے ہیں، لہٰذا جو کوئی بھی وزارت خارجہ کی ذمہ داریاں سنبھالنا چاہے گا، ان کے لئے یہ کام اتنا آسان نہیں ہوگا۔
لرزاں تھے ترے دم سے یہودی و نصاریٰ
ہیبت تری باطل پہ تھی یو این تا بخارا
لگتا تھا کہ آیا ہے سلیمانی دوبارہ
باطل کے لیے ضرب حسین ابن علیؑ تھا
قرآں کا محافظ تھا، وہ عمار علی تھا