مضامینہفتہ کی اہم خبریں

فکرِ امام خمینیؒ اور ایران

تحریر: تصور حسین شہزاد

بانیِ انقلاب اسلامی ایران، امام خمینیؒ کی رحلت کو 35 برس بیت گئے ہیں۔ امام خمینیؒ خمین میں پیدا ہوئے۔ اصل نام روح اللہ خمینی تھا، لیکن امام خمینیؒ کے نام سے معروف ہوئے۔ 3 جون 1989ء کو تہران میں انتقال کیا۔ ایرانی قوم کو نہ صرف دینی و روحانی میدان میں عظیم الشان رہنمائی کی بلکہ سیاسی سطح پر بھی ایرانی قوم کو عظیم اسلامی انقلاب سے ہم آہنگ کیا۔ امام خمینیؒ کو اپنے انقلابی نظریات کی وجہ سے جلاوطنی کی زندگی بھی گزارنا پڑی۔ امام خمینیؒ نے ایران کے شاہی نظام کیخلاف 1962ء میں جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ اس جدوجہد میں امامؒ کو مختلف ادوار کا سامنا کرنا پڑا۔ امامؒ نے ہر قسم کی آزمائش کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا۔ امام نے اپنی زندگی ایرانی قوم کی سیاسی، سماجی اور دینی رہنمائی کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ ان کی محنت بالاآخر 11 فروری 1979ء کا رنگ لے آئی اور ایران اسلامی انقلاب سے سرفراز ہوا۔ اس سے قبل شاہ نے ایران کو امریکہ کی سرپرستی میں عیاشی کا اڈہ بنا رکھا تھا۔ پورپ کے آوارہ مزاج لوگ عیاشی کیلئے ایران کا رخ کرتے تھے۔

ایران میں انقلاب کے بعد امام خمینیؒ وطن واپس پہنچے اور ان کا تاریخی استقبال کیا گیا۔ ایران پہنچ کر انہوں نے زندگی کے آخری لمحے تک اپنی قوم کی ہر شعبے میں فقیدالمثال رہنمائی کی۔ دنیا بھر کے مستضعفین امام خمینیؒ کی ’’مظلوم کی حمایت اور ظلم سے نفرت‘‘ کی عالمگیر پالیسی کے باعث ان سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ انہوں نے بطور عالم دین اور بطور سیاستدان، اپنی صلاحیتوں کو لوہا منوایا۔ امام خمینی زندگی کے ہر شعبے میں ایک مکمل شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنی انقلابی جدوجہد کا آغاز اس وقت کیا، جب ہر طرف شاہ کے اقتدار کا نقارہ بج رہا تھا۔ ایک مضبوط حکمران ایران کے اقتدار پر قابض تھا اور اوپر سے اسے امریکی حمایت اور تمام ہمسایہ ممالک کی ہمددری بھی حاصل تھی۔ ایسے میں ایران میں انقلاب کیلئے سوچنا بھی عبس دکھائی دیتا تھا۔ مگر امام خمینیؒ نے اس وقت بھی شاہ کیخلاف اپنی تقریروں میں زمینہ سازی کرنا شروع کر دی تھی۔ ایک بار شاہ قم کے مدرسے کے دورے پر آیا، جہاں امام خمینیؒ زیرتعلیم تھے۔ شاہ ایران امام خمینیؒ کی کلاس میں بھی خصوصی طور پر گیا۔ پوری کلاس ان کے استقبال کیلئے کھڑی ہوگئی۔ شاہ نے پوچھا آپ میں خمینیؒ کون ہے؟ جواب ملا، جو آپ کے استقبال کیلئے کھڑا نہیں ہوا، وہ خمینی ہے۔ شاہِ ایران کو اپنے اقتدار اور اختیار، دونوں پر بڑا ناز تھا، بولا، میرا تخت الٹنا آپ کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ مگر تاریخی کی بوڑھی آنکھوں نے یہ منظر دیکھا کہ وہی خمینیؒ جس نے بے سروسامانی کے عالم میں جدوجہد کا آغاز کیا تھا، اپنے ہدف میں مخلص ہونے کے باعث اس میں کامیاب ہو گیا۔

امام خمینیؒ نے جب جدوجہد کا آغاز کیا تو ایک صحافی نے سوال کیا کہ شاہ کے پاس اتنی مضبوط فوج  ہے، جس کا مقابلہ کرنے کیلئے فوج کی ضرورت ہے، آپ کے پاس فوج کہاں ہے؟؟ امامؒ  نے جواب دیا، میری فوج ایک وقت ماوں کی گود میں پل رہی ہے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا، اس انٹرویو کے 20 سال بعد انقلاب آ گیا، یوں امام کا وہ جملہ درست ثابت ہوا کہ میری فوج ماوں کی گود میں ہے۔ امام نے بچوں سے تربیت کی۔ یہی وہ راہ حل ہے کہ اگر معاشرے میں تبدیلی لانی ہے تو نوجوانوں کو تیار کریں، نیا ذہن جلدی نئی بات قبول کرتا ہے۔ جو معاشرے آج بھی غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ امام کے اس قول سے روشنی لے کر اپنے معاشروں کو غلامی سے نجات دلا سکتے ہیں کہ نوجوانوں کی تربیت کی جائے تو نتائج بہتر نکلتے ہیں۔ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے بھی مغربی نوجوانوں کو مخاطب کرکے کچھ عرصہ قبل انہیں خط لکھا تھا، جس میں انہیں اپنے ہدف کی تعین اور ظلم کیخلاف قیام کی فکر دی تھی۔ آج اسی خط کا نتیجہ ہے کہ یورپ کی یونیورسٹیز میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ہڑتالیں چل رہی ہیں، اور نوجوان ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ وہ فکر امام کی روشنی میں رہبر معظم کا اقدام تھا، جس نے یورپ کی بڑی بڑی حکومتوں کو جھکنے پر مجبور کر دیا ہے۔

یہ امامؒ کی فکر ہی ہے کہ جس نے آج ایران کو ایک مضبوط قوت میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ کریڈٹ بھی امام خمینیؒ کو جاتا ہے کہ ایران آج سپر طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے۔ امریکہ ایران کو دھمکیاں ضرور دیتا ہے مگر اس میں اتنی جرات نہیں کہ وہ ایران پر چڑھائی کر سکے۔ گزشتہ ماہ جب ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا، تو امریکہ نے اسرائیل کو روک دیا تھا کہ اگر کوئی جوابی وار کی حماقت کی تو ایران کا وار برداشت کرنے کی ہمت نہیں ہو گی۔ اسلامی انقلاب دشمن قوتیں مسلسل کہتی آ رہی ہیں کہ یہ انقلاب زیادہ دیر نہیں چل سکے گا۔ ہزار سازشوں کے باوجود انقلاب اپنی پوری آب و تاب کیساتھ موجود ہے، نہ صرف موجود ہے بلکہ تیزی سے ترقی کی جانب بھی گامزن ہے۔ ایران میں احتجاجی مظاہروں کو ہوا دی گئی، لاکھوں ڈالر اس کیلئے خرچ کئے گئے، مگر دشمنوں کو کامیابی نہیں ملی، اس کی وجہ فکر امام خمینیؒ ہے کہ جس نے دشمنوں کی راہ میں روڑے اٹکائے رکھے، اور انہیں اپنے ناپاک عزائم میں کامیابی نہیں ملی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایرانیوں کی اکثریت انقلاب اسلامی کے ثمرات سے مستفید ہو رہی ہے۔ جس پر ایرانی قوم اپنے مذہبی حکمرانوں سے خوش اور مطمئن ہیں۔ ایسی صورتحال میں انقلاب کو نقصان پہنچانے والی قوتیں خود بخود ناکام ہو جاتی ہیں۔ جب تک ایرانی امام خمینیؒ کی فکر پر عمل پیرا رہیں گے، انقلاب دن بہ دن پھلتا پھولتا جائے گا اور ایرانی اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔

انقلابی ایران ایک فلاحی ریاست ہے اور ہر ترقی یافتہ جمہوری معاشرے اور ملک کی طرح ایران میں بھی لوگوں کو آزادی اور بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ عدلیہ بالکل انتظامیہ کے اثر سے آزاد ہے۔ قانونی مساوات بھی ہے اور قانون و آئین کی بالادستی بھی۔ نیچے سے لے کر صدر اور رہبر تک ہر کوئی دستور کا پابند ہے۔ ہر کسی حکومتی عہدیدار کا کڑا احتساب ہوتا ہے۔ وزرا، صدر اور پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہیں۔ صدر پارلیمان، رہبر کے سامنے جوابدہ ہے اور رہبر منتخب مجلس خبرگان کے سامنے جوابدہ ہے۔ کوئی شخص آئین و قانون سے برتر نہیں، اور اعلیٰ سے اعلیٰ منصب پر فائز ہر شخص آئین وقانون کا زیردست ہے، چاہے وزراء ہوں صدر ہو، یا رہبرمعظم۔ آمر اور مطلق العنان حکمرانوں کوایران کا نظام حکومت ہمیشہ کھٹکتا رہا ہے، کیونکہ اس نظام میں بادشاہ نہیں، بلکہ عوام کا منتخب کردہ نمائندہ حکمرانی کرتا ہے، جو براہ راست عوام کو جواب دہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ہمیشہ ایران کیخلاف پروپیگنڈا کیا مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایسے لوگوں کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ہے۔ انقلاب اسلامی کیخلاف امریکہ کی تمام گھناؤنی سازشیں ناکام ہو گئیں اور اسلامی جمہوریہ ایران 45 سال بعد علم و سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں ترقی اور پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ یہ ساری ترقی امام خمینیؒ کے عظیم افکار کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔ ایران کے پاس اگر کوئی ترقی کا روڈ میپ ہے تو وہ امام خمینیؒ کی فکر ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button