آج 7 ذی الحجہ پوم شہادت امام محمد باقر علیہ السلام ہے
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام پیغمبرِ اسلام حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کے پانچوں جانشین ہمارے پانچویں امام اور سلسلہ عصمت و طہارت کی ساتویں کڑی ہیں ۔
آپ کے پدر گرام حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اور مادر گرامی فاطمه بنت امام حسن علیہ السلام تھی اور علماء کا اتفاق ہے آپ ماں باپ دونوں کی طرف سے علوی اور ہاشمی تھے نسب کا یہ شرف کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔
امام محمد باقرعلیہ السلام کی زندگی تمام تر عقل و دانش سے تعبیر ہے اور اسی لئے آپ کو باقر العلوم کہا جاتا ہے یعنی عقلی مشکلات کو شگافتہ کرنیوالے اور معرفت کی پیچیدگیوں کو آسان کرنیوالے ۔
امام محمد ؑ کی عبادت
آپ اپنے آباؤاجدادکی طرح بے پناہ عبادت کرتے تھے ساری رات نمازپڑھنی اورسارا دن روزہ سے گزارناآپ کی عادت تھی آپ کی زندگی زاہدانہ تھی، بورئیے پربیٹھتے تھے ہدایاجوآتے تھے اسے فقراء ومساکین پرتقسیم کردیتے تھے غریبوں پربے حدشفقت فرماتے تھے تواضع اورفروتنی،صبروشکرغلام نوازی صلہ رحم وغیرہ میں اپنی آپ نظیرتھے آپ کی تمام آمدنی فقراء پرصرف ہوتی تھی آپ فقیروں کی بڑی عزت کرتے تھے اورانہیں اچھے نام سے یادکرتے تھے۔
آپ کے ایک غلام افلح کابیان ہے کہ ایک دن آپ کعبہ کے قریب تشریف لے گئے، آپ کی جیسے ہی کعبہ پرنظرپڑی آپ چیخ مارکررونے لگے میں نے کہا کہ حضورسب لوگ دیکھ رہے ہیں آپ آہستہ سے گریہ فرمائیں ارشادکیا،اے ا فلح شاید خدابھی انہیں لوگوں کی طرح میری طرف دیکھ لے اورمیری بخشش کاسہاراہوجائے، اس کے بعدآپ سجدہ میں تشریف لے گئے اورجب سراٹھایاتوساری زمین آنسوؤں سے ترتھی۔
7 سال کی عمرمیں امام ؑ کا حج خانہ کعبہ
علامہ جامی تحریرفرماتے ہیں کہ راوی بیان کرتا ہے کہ میں حج کے لیے جا رہا تھا،راستہ پرخطر اور انتہائی تاریک تھا جب میں لق ودق صحرا میں پہنچا تو ایک طرف سے کچھ روشنی کی کرن نظرآئی ۔ میں اس کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ ناگاہ ایک سات سال کا لڑکا میرے قریب آ پہنچا،میں نے سلام کا جواب دینے کے بعد اس سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ کہاں سے آ رہے ہیں اورکہاں کا ارادہ ہے، اورآپ کے پاس زاد راہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا، سنو میں خدا کی طرف سے آرہا ہوں اورخدا کی طرف جا رہا ہوں، میرا زاد راہ ”تقوی“ ہے ۔ میں عربی النسل ،قریشی خاندان کا علوی نزاد ہوں،میرا نام محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہے، یہ کہہ کر وہ دونوں سے غائب ہو گئے اورمجھے پتہ نہ چل سکا کہ آسمان کی طرف پرواز کر گئے یا زمین میں سما گئے ۔
واقعہ کربلا میں امام ؑ کاحصہ
آپ کی عمرابھی ڈھائی سال کی تھی، کہ آپ کوحضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ وطن عزیزمدینہ منورہ چھوڑنا پڑا،پھرمدینہ سے مکہ اور وہاں سے کربلا تک کی صعوبتیں سفر برداشت کرنا پڑی اس کے بعد واقعہ کربلا کے مصائب دیکھے، کوفہ وشام کے بازاروں اوردرباروں کا حال دیکھا ایک سال شام میں قید رہے، پھروہاں سے چھوٹ کر ۸/ ربیع الاول ۶۲ ھ کو مدینہ منورہ واپس ہوئے۔
حضرت امام باقر (ع) اپنے والدِ ماجد امام زین العابدین (ع) کی شهادت کے بعد 19/انیس سال دس مہینہ زنده رهے اور اس پوری مدّت میں امامت کے عظیم وظائف و ذمہ داریوں، اسلامی تہذیب و ثقافت کی تعلیم، شاگردوں کی تربیت و تعلیم، اصحاب اور لوگوں کی رهنمائی، لوگوں کے درمیان اپنے جدّ بزرگوار کی سنّت کو نافذ کرنے، غاصب نظامِ حکومت کو صحیح راستہ کی جانب توجّہ دلانے اور لوگوں کو حقیقی رهبر و امامِ معصوم کی معرفت کی طرف هدایت کرتے رهے، کیونکہ روئے زمین پر صرف یہی پیغمبر اکرم (ص) کے حقیقی جانشین و خلیفہ هیں اور اس وظیفہ پر عمل کرنے میں ایک لمحہ کے لئے بھی غفلت نہیں برتی هے، امام باقر (ع) ایک زمانے تک اسلامی سماج و معاشره کی اجتماعی خدمات انجام دیتے رهے نیز ترویج علم، تبلیغ دین اور عبادت و بندگی پروردگار کرتے هوئے ۷/سات ذی الحجہ سنہ114ھ، کو درجہ شهادت پر قائز هوئے۔
امام ؑ کی شهادت
اموی حکمراں لوگوں میں امام محمّد باقر علیہ السلام کی مقبولیت سے ہمیشہ پریشان اورخوفزدہ رہتے تھے ۔امام علیہ السلام کےدور میں کئی اموی حکمران گزرے جن میں سے ہشام بن عبدالملک نے آپ سے سب سے زيادہ سخت رویہ اور سلوک روا رکھا ۔
امام ؑ اپنے علمی فیوض وبرکات کی وجہ سے اسلام کوبرابرفروغ دے رہے تھے لیکن اس کے باوجودہشام بن عبدالملک نے آپ کوزہرکے ذریعہ سے شہیدکرادیا ۔
آپ کی شہادت ہشام کے حکم سے ابراہیم بن ولیدوالی مدینہ کی زہرکے ذریعہ واقع ہوئی ہے ایک روایت میں ہے کہ خلیفہ وقت ہشام بن عبدالملک کی مرسلہ زہرآلودزین کے ذریعہ سے واقع ہوئی تھی ۔
شہادت سے قبل آپ نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے بہت سی چیزوں کے متعلق وصیت فرمائی آپ نے غسل وکفن کے متعلق خاص طورسے ہدایت کی کیونکہ امام کوامام ہی غسل دے سکتاہے ۔
امام محمد باقرؑ جنت البقیع میں اپنے والد امام زین العابدین علیہ السلام کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے۔