6 جولائی۔۔۔۔۔ ملت تشیع کا یادگار دن
تحریر: سید نثار علی ترمذی
9 اپریل 1980ء کو صدام حکومت نے فیلسوف مشرق آیت اللہ باقر الصدر اور ان کی ہمشیرہ کو بے دردی سے شہید کر دیا تھا۔ اس پر ملک بھر کے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ راولپنڈی اسلام آباد کے علماء نے ایک تنظیم بنائی ہوئی تھی، جس میں علامہ شیخ محسن علی نجفی مرحوم، علامہ حامد علی موسوی مرحوم، علامہ سید ساجد علی نقوی، علامہ احمد حسن نوری اور علامہ سید افتخار حسین نقوی کے علاؤہ دیگر علماء کرام شامل تھے۔ ان میں سے تین بزرگ علماء علامہ شیخ محسن علی نجفی مرحوم، علامہ سید ساجد علی نقوی اور علامہ افتخار حسین نقوی کو شہید باقر الصدر (رح) کے شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے طے کیا کہ شہید باقر الصدر کا چہلم چار پانچ جولائی 1980ء کو جی سیکس ٹو اسلام آباد کی امام بارگاہ میں منعقد کیا جائے گا۔
ممتاز شیعہ رہنماء آغا صابر علی مرحوم جنہوں نے اپنے ہوٹل کی زمین مدرسہ آیت اللہ الحکیم، ٹرنک بازار راولپنڈی کے لیے وقف کی تھی، یہ تجویز لے کر علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم کے پاس آئے۔ علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم نے تجویز سے اتفاق کیا کہ اس سلسلے میں آئی ایس او اور آئی او کے ارباب حل و عقد سے مشاورت کر لوں۔ اس مشاورت کے نتیجہ میں یہ تجویز سامنے آئی کہ اس اجتماع کو ملک گیر قومی کنونشن قرار دیا جائے۔ اس اعلان کے لیے ضروری تھا کہ قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم اس تجویز کی تائید کریں۔ یوں سید ثاقب اکبر مرحوم ایک اور برادر کے ساتھ گوجرانولہ تشریف لے گئے۔ بقول ثاقب بھائی قائد ملت اس تجویز سے شروع میں متفق نہ ہوئے، مگر بحث و دلائل کے بعد راضی ہوگئے۔
یہ وفد قائد ملت سے ایک تحریر حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ اس تحریر کو اشتہار کی صورت میں وسیع پیمانے پر شائع کیا گیا۔ آئی ایس او نے اپنی مجلس عاملہ اور آئی او نے اپنی مجلس اخوان کے ہنگامی اجلاس بلا کر مذکورہ قومی کنونشن کی منظوری، تائید اور مہم چلانے کی منظوری لی۔ ملک گیر مہم اور رابطوں کے نتیجہ میں اسلام آباد کا ہاکی گروانڈ (اب یہاں سے سڑکیں گزرتی ہیں، لال کواٹرز کے ساتھ) لوگوں سے بھر گیا۔ سخت گرمی میں لوگوں کا ملک گیر اجتماع خود ایک معجزہ تھا۔ اس پروگرام کے تمام تر اخراجات محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم نے برداشت کیے اور انتظامات مقامی تنظیموں کے ساتھ ساتھ آئی ایس او اور آئی او کے نوجوانوں نے دن رات ایک کئے۔
علماء کا ایک وفد مرکزی وزیر مذہبی امور محمود ہارون سے ملاقات کے لیے گیا۔ وزیر نے ملنے سے انکار کر دیا۔ شیخ امین راوی ہیں کہ علماء کرام دفتر کے باہر کھڑے تھے جبکہ وزیر دفتر چھوڑ کر جانے لگا تو برادر ثاقب نقوی وزیر کی گاڑی کے سامنے لیٹ گئے۔ یوں مجبوراً وزیر نے علماء کے وفد سے مذاکرات کیے اور وعدہ کیا کہ یہ تجاویز صدر جنرل ضیاء الحق کو پہنچا دیں گے اور جو پیش رفت ہوئی، اس سے مطلع کریں گے، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ پانچ جولائی 1980ء کو طے پایا کہ شرکاء مرکزی سیکرٹریٹ تک مارچ کریں گے اور دھرنا دیں گے۔ جب جلوس سیکرٹریٹ کی طرف روانہ ہوا تو پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کی ہوئی تھیں، جسے ہٹا کر جلوس آگے بڑھا تو پولیس نے لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ جواب میں نوجوانوں نے درختوں کی شاخیں توڑ کر پولیس کو ہٹایا تو پولیس نے آنسو گیس پھینکنی شروع کر دی۔ آنسو گیس کے ایک گولہ سے شورکوٹ کا نوجوان محمد حسین شاد درجہ شہادت پر فائز ہوگیا۔
اس رات بارش بھی ٹوٹ کر برسی، مگر علماء کرام، ذاکرین اور عوام صبر و استقلال کے ساتھ میدان میں موجود رہے۔ راولپنڈی و اسلام آباد کے مومنین نے مہمان نوازی کو خوب نبھایا۔ نہ پانی ختم ہؤا نہ کھانا بلکہ سگریٹ تک مہیاء کیے گئے۔ بی بی سی نے خبر دے دی کہ سیکرٹریٹ پر قبضہ ہوگیا ہے۔ نوجوان بی بی سی کے نمائندے کو لے کر آئے اور اسے دکھایا کہ یہ دھرنا ہے، قبضہ نہیں۔ اسی رات شہید فقہ جعفریہ کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور جنازہ شورکوٹ روانہ کر دیا گیا۔ اس دھرنے کو چاروں طرف سے مسلح فورس نے گھیر رکھا تھا اور وہ کسی وقت بھی کارروائی کرسکتے تھے۔
اسی دوران رابطہ کیا گیا کہ وفد مذاکرات کے لیے صدر سیکرٹریٹ آئے۔ باہمی مذاکرات کے بعد قائدِ ملت علامہ مفتی جعفر حسین کی قیادت میں ایک وفد مذاکرات کے لیے گیا۔ طویل ترین مذاکرات کے بعد طے پایا کہ قانون سازی می فقہ جعفریہ کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ قائد ملت جعفریہ نے واپس آکر اس بارے میں خوش خبری سنائی اور کامیابی کی نوید دی اور لوگوں کو پرامن طور پر اپنے اپنے گھروں کو جانے کی تلقین کی۔ اس واقعہ کو نصف صدی ہونے کو ہے۔ آج ہر گہری سوچ رکھنے والا شخص اس کے نتائج تلاش کرسکتا ہے۔ کسی سنجیدہ فورم پر اس حوالے سے بات ہونی چاہیئے کہ اس دھرنے میں ملت جعفریہ کو کیا ملا اور کیا نقصان اٹھانے پڑے؟
اس کامیابی پر جو کہ تاریخ تشیع پاکستان کا ایک ناقابل فراموش باب ہے، اس پر کوئی کتاب موجود نہیں ہے۔ ایک گروہ نگارش کو اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بظاہر تو بہت بڑی کامیابی نصیب ہوئی۔ ملا فقط بنکوں میں رکھی گئی دولت پر استثنا۔ اس استثنا سے پوری پاکستانی قوم نے خوب فائدہ اٹھایا۔ حکمران قوتوں نے اس اتحاد کو توڑنے کے لیے طویل المدت منصوبہ بندی کی۔ اس واقعے کے بعد یہ ملت کبھی متحد نہ ہوسکی۔ فرقہ وارانہ تنظیموں کی سرپرستی کرکے دہشت گردی کے جن کو کھلا چھوڑ دیا گیا۔ کتنے حسین اور ذہین افراد اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس سے عجیب تر بات یہ ملت اس دن کو ہی بھول گئی۔
6 جولائی 1985ء
شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے حکومت وقت کو قائد مرحوم سے کیا گیا وعدہ یاد کرانے اور اس پر عمل درآمد کروانے کے لیے اس دن احتجاج کا اعلان کیا۔ تین صوبائی مقامات لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں احتجاجی جلسے ہوئے۔ لاہور میں مسجد شہداء کے سامنے مال پر جلسہ منعقد ہوا، جبکہ کوئٹہ میں جب لوگ امام بارگاہ سے باہر نکلے تو پولیس نے ان پر اندھا دھند گولی چلا دی، جس سے سولہ افراد شہید ہوگئے، بیسیوں زخمی ہوئے، سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسیران کی رہائی کے لیے قائد شہید نے یکم مئی 1986ء کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ لانگ مارچ کی مہم کے نتیجے میں یکم مئی سے قبل ہی اسیروں کو رہا کر دیا گیا۔
6 جولائی 1987ء
ملت نے جب اس ملک کے نظام پر اپنا موقف دیا۔ مینار پاکستان کے میدان میں عظیم شان قرآن و سنت کانفرنسں منعقد ہوئی۔ جس میں منشور "ہمارا راستہ” کے نام سے پیش کیا گیا۔ اس منشور میں نظام حکومت کے ہر پہلو پر ملت کا موقف پیش کیا گیا۔ شہید قائد نے تاریخی خطاب کیا۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے فرمایا تھا کہ یہاں ملت نے ارتقاء کی طرف قدم بڑھایا ہے کہ اپنے مسائل کے بجائے ملک اور قوم کے مسائل کے لیے سوچنا شروع کیا ہے۔ زندہ ملتیں اپنے یادگار دن یاد رکھتی ہیں۔ شہداء اسلام اور قائدین مرحومین کی عظمت کو سلام۔