اسلام آباد میں پاراچنار کے طوری بنگش قبائل کی اہم پریس کانفرنس
شیعہ نیوز: تحریک حسینی کی قیادت میں طوری بنگش قبائل کا ایک اعلی سطحی وفد صدر تحریک حسینی کی قیادت میں گزشتہ 9 دنوں سے اسلام آباد میں مقیم ہے تاکہ اعلی حکومتی عہدیداران، ذمہ داروں اور اداروں تک اپنی فریاد اور اپنی آواز پہنچا سکیں۔ صدر تحریک حسینی علامہ سید تجمل الحسینی نے اس دوران اپنے حقوق کے ثبوت کے ڈاکومنٹس ذمہ دار ادروں تک پہنچا دیئے۔ ترتیب وار کاروائیوں کے بعد 21 اگست کو شام چار بجے اسلام آباد پریس کلب میں انہوں نے پریس کانفرنس کی۔ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران صدر تحریک حسینی علامہ سید تجمل حسینی، سابق آئی جی سید ارشاد حسین، شبیر ساجدی، بشیر بابو اور دیگر رہنماوں نے اپنے حقوق اور مطالبات کی مندرجہ ذیل 20 نکات پر مشتمل لسٹ پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا کی نظریں پاکستان کے قبائلی علاقوں، بالخصوص کرم میں رونما ہونے والے واقعات پر مرکوز ہیں۔ پاراچنار گزشتہ کئی دہائیوں سے بدامنی کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2007ء سے لیکر 2012ء تک پاراچنارکے راستے مکمل بند رہے، نتیجتا اہلیان کرم کو پشاور تک کا چار پانچ گھنٹے کا سفر، افغانستان کے پانچ چھ صوبوں سے ہوکر گردیز، کابل اور جلال آباد اور پھر طورخم سے ہوتے ہوئے چوبیس گھنٹؤں میں طے کرنا پڑتا تھا، پانچ سال کے طویل محاصرے کے بعد مری کے مقام پر شیعہ سنی عمائدین کے مابین ایک معاہدے پر اتفاق ہوا، جس کے بعد عارضی طور پر مختصر مدت کیلئے صلح و آشتی قائم ہوگئی تاہم اس پورے عرصے میں اہلیان علاقہ مکمل طور پر سکھ کا سانس نہ لے سکے۔ رہنماوں کے مطابق کبھی بیرون ملک دہشتگردوں اور طالبان کے ہاتھوں پٹتے رہے، کبھی مقامی شرپسند قبائل کے ہاتھوں بربریت کا شکار رہے، شرپسندوں اور دشمنوں سے کیا شکوہ و شکایت، اپنی حکومت بھی اس دوران زیادتی کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ انہوں نے اہلیان علاقہ کے ساتھ جو مظالم روا رکھے، انکی تفصیل کچھ یوں ہے۔
1۔ کاغذات مال کو لاگو کرانے میں حکومت کا تساہل اور غفلت
کرم میں جنگ وجدل اور بد امنی کا بنیادی باعث اور سبب زمینی تنازعات ہیں جبکہ یہ بھی واضح ہو کہ دیگر ایجنسیز سے ہٹ ضلع کرم میں زمینوں کا ریونیو ریکارڈ موجود ہے۔ جس میں مالکان اور کاشتکاران وغیرہ کا واضح تعین کیا گیا ہے، مگر بدقسمتی سے سرکار کے پاس موجود ریکارڈ کو بروئے کار نہیں لایا جاتا جس کی وجہ سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید الجھ رہے ہیں۔ اس کی واضح مثال بالش خیل، پیواڑ، کنج علی زئی اور بوشہرہ وغیرہ ہیں، جہاں آئے روز زمینوں کی ملکیت پر دعویداری کے نتیجے میں لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔ جو لاشوں اور زخمیوں پر منتج ہوتی ہیں۔
2۔ شرپسندوں سے حکومت کی چشم پوشی
منگل قبیلے کے عید نظر منگل، ترابی منگل اور کچھ دیگر شرپسندوں کی جانب سے میڈیا پر کھلم کھلا شرپسندانہ بیانات، اور اشتعال انگیز تقریروں کی وجہ سے علاقے کا امن و امان تو پہلے ہی سبوتاژ ہوچکا ہے تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ کھلم کھلا اس شرپسندی سے حکومت ہمیشہ چشم پوشی برت رہی ہے۔
3۔ جنگ کا آغاز کرنے والوں سے انتظامیہ کی چشم پوشی
کرم میں جنگ کا آغاز عموما سرکاری روڈ (جرنیلی سڑک) پر طوری قبائل کی گاڑیوں پر ٹارگٹ حملوں نیز مقبل اور منگل قبائل کی جانب سے دہشتگردانہ کاروائیوں اور زمینوں پر بے جا قبضہ جات سے ہوتا ہے۔ سرکار کی جانب سے انکی ایسی کاروائیوں کا کوئی انسداد نہیں کیا جاتا، یہی نہیں بلکہ کرم میں طالبان کی آمداور فعالیت پر حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے اور انکی کاروائی بڑھ کر علاقے میں موجود اپنے سہولتکاروں کے ذریعے طوری قبائل پر حملوں کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں طالبان کی جارحیت کے نتیجے میں 50 سے زیادہ جانیں تلف ہوگئیں۔
4۔ مجرم کے بجائے طوری بنگش قبائل پر ایف آئی آر کٹوانے میں حکومت کی کھلی جانبداری
لڑائی جھگڑے بیشک ہوتے رہے ہیں جبکہ یہ لڑائیاں ہمیشہ طالبان نواز منگل اور مقبل قبائل کی جانب سے مسلط ہوتی رہی ہیں۔ تاہم حکومت کی جانب سے جانبداری اور طالبان نوازی کا ایک ایسا غیر مساویانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے کہ طوری اور بنگش قبائل پر فردا فردا ایف آئی آر درج کئے جاتے ہیں۔ طالبان نواز قبائل پر اولا تو کوئی ایف آئی آر درج نہیں کیا جاتا، اگر کبھی ہوتا بھی ہے تو نام درج کرنے کی بجائے صرف تعداد اور نامعلوم افراد کا تذکرہ ہوتا ہے۔
5۔ تری منگل اسکول کے حوالے سے حکومت کی جانبداری اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ
پچھلے سال 4 مئی 2023ء کو گورنمنٹ ہائی اسکول تری منگل میں سرکاری اساتذہ کو شرپسندوں نے وہاں کے مشران، طلباء اور اسکول اسٹاف کی موجودگی میں بہیمانہ طریقے سے قتل کیا۔ ذبح کرنے کے بعد انہیں جلادیا اور پھر اس کی ویڈیو بھی بنائی، مگر حکومت نے اس دردناک سانحے پر کوئی ردعمل نہیں دکھایا، علاقائی اساتذہ اور طلباء کی طرف سے مسلسل احتجاج کے باوجود کسی مجرم کو آج تک نہیں پکڑا۔ ڈیوٹی پر موجود مجرم اساتذہ، کلاس فور نوکران اور طلباء میں سے کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا۔
6۔ ماورائے عدالت بے گناہ افراد کو اٹھاکر اغوا کرنا
کرم میں گزشتہ 12 سال سے بے گناہ افراد کو ماورائے عدالت اٹھایا جارہا ہے۔ بغیر کسی کیس اور ثبوت کے انہیں اغوا کرکے لاپتہ رکھا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے انکے خانوادے پریشان ہیں۔
7۔ فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم
کرم میں گزشتہ 5 سال سے کئی ارب روپے کا کام ہوچکا ہے۔ مگر اس پورے سرمائے میں سے صرف 7 فی صد فنڈز طوری بنگش علاقوں میں صرف ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان قبائل کی آبادی 50 فیصد ہے۔
8۔ پاراچنار میں اہل سنت مسجد کی حفاظت جبکہ صدہ میں شیعہ مساجد اور امام بارگاہ راکھ کا ڈھیر
نقل مکانی کے بعد پاراچنار میں اہل سنت کی صفر فیصد آبادی ہونے کے باوجود یہاں انکی مسجد عالی شان صورت میں محفوظ ہے جبکہ صدہ سے شیعوں کی نقل مکانی کے بعد وہاں پر موجود انکی مساجد اور امام بارگاہ نیز قبرستانوں کو مسمار کیا گیا، یہی نہیں بلکہ وہاں پورے شہر کی غلاظت ڈالی جاتی ہے۔
9۔ راستوں میں سرکاری روڈ پر گاڑیوں میں طوریوں کا قتل عام
پاراچنار کا یہ منی غزہ 2007ء سے لیکر 2012ء تک محصور رہا۔ اس پانچ سال کے عرصے میں یہاں کے باسیوں کو افغانستان کابل سے ہوکر پشاور جانا پڑتا اور پھر وقتا فوقتا اس راستے کو طوریوں پر بند کیا جاتا رہا اور ہفتوں بلکہ مہینوں یہ راستہ ان پر بند ہوتا رہا۔ یہاں اشیائے خورد ونوش کی قلت رہی، مریضوں، زخمیوں اور بیرون ملک جانے والوں کو الگ سے زحمت اٹھانی پڑتی ہے۔
10۔ محب وطن طوری قبائل کو انٹی سٹیٹ قرار دینے کی غیرمنصفانہ پالیسی
طول تاریخ میں کبھی ایک گھنٹے کیلئے یہاں پاکستانی جھنڈا سرنگون نہیں رہا، یہاں ہمیشہ سے پاکستانی پرچم بلند رہا ہے۔ سرکاری عمارت کو کبھی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ کبھی کسی سرکاری اہلکار کو یہاں کوئی گزند نہیں پہنچی ہے۔ پھر بھی انہی سرکاری اہلکاروں نے اپنے مراسلوں میں طوری قبائل کو اینٹی اسٹیٹ جبکہ اینٹی سٹیٹ طالبان نواز افغان نژاد قبائل کو محب وطن ظاہر کیا ہے جو کہ انکی کھلم کھلم فرقہ واریت اور طوری دشمنی ہے۔
11۔ پاراچنار میں افغان قبائل کی حفاظت کی ضمانت کیلئے محفوظ پناہ گاہ
پاراچنار میں افغان قبائل کی حفاظت کیلئے ایف سی بیکری کے نام پر ایک محفوظ پناہ گاہ بنائی گئی ہے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں متاثرہ قبائل کو یہاں پناہ دی جاتی ہے۔ تاہم اہلیان پاراچنار یعنی طوری قبائل کی حفاظت کیلئے صدہ میں کوئی پناہ گاہ موجود نہیں، چنانچہ صدہ میں شیعہ مسافرین، سرکاری اور ایف سی اہلکاران کو یہاں بے دردی سے قتل کیا جاچکا ہے۔
12۔ متنازعہ اور حساس مقامات پر سرکاری اہلکاران کی تقرری میں عدم مساوات
حساس مقامات پر قاعدے کے مطابق مکس نفری کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دونوں فریق مطمئن ہوں جبکہ یہاں حساس مقامات پر ہمارے تحفظات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ مکس سرکاری نفری کا تعین نہیں کیا جاتا، بلکہ پاکستان مخالف قبائل کا لحاظ رکھتے ہوئے انہی کے حمایت یافتہ افرادنفری کو تعینات کیا جاتا ہے۔
13۔ افغانستان سے طالبان کی در اندازی
کرم میں لڑائیاں تو ہمیشہ اراضی پر ہوتی رہی ہیں۔ تاہم ان قبائلی لڑائیوں کے دوران افغانستان سے ٹی ٹی پی کی شکل میں دراندازی ہوتی ہے۔ جو بھاری ہتھیاروں سمیت پاکستانی سرحد پر لگائے گئے باڑ کو عبور کرکے اپنے ہم خیال قبائل کی حمایت کو پہنچ جاتے ہیں۔
14۔ تجارتی اور اقتصادی ناکہ بندی
افغان ٹرانزٹ روٹس میں سے پاراچنار سب سے محفوظ، مختصر، آسان اور شارٹ روٹ ہے۔ اس راستے سے افغانستان سے صرف کوئلہ آتا ہے جبکہ پاکستان سے ہر طرح کی اجناس جاتی ہیں۔ یعنی اس روٹ پر یک طرفہ تجارت ہوتی ہے، یوں علاقائی عوام کو کسی قسم کے فائدے کی بجائے صرف کوئلے کا غبار کھانا پڑتا ہے۔ چنانچہ افغانستان سے یک طرفہ تجارت کی بجائے دو طرفہ تجارت شروع کی جائے اور اس کے لئے خرلاچی اور پاراچنار میں مراعات یافتہ مارکیٹ کی تعمیر عمل میں لائی جائیں۔
15۔ خودکش حملہ آوروں کی سہولتکاری
پاراچنار میں ہونے والےخودکش دھماکوں میں سے اکثر کی سہولت کاری یہاں کے انہی شرپسند قبائل نے کی ہے۔ کرمی بازار دھماکے کی ذمہ دار میجر مست گل منگل، خار بازار دھماکے کی ذمہ دار فضل سعید حقانی آف بگن، کباڑ دھماکے کی سہولت کاری بوشہرہ کے حاجی حجت منگل کے بیٹے، فلائنگ کوچ اڈہ دھماکہ خود غیور چمکنی نے، سبزی منڈی دھماکہ کی سہولت کاری عابد خان بوشہرہ نے جبکہ یوم القدس کے جڑوان دھماکوں کے خودکش حملہ آور 25 دن بوشہرہ میں ٹھہرے تھے۔ اس کے علاوہ تری منگل اور غوزگڑھی کے متعدد افراد نے خودکش دھماکوں کی سہولت کاری کی ہے، جس میں طوری بنگش قبائل کے ہزاروں افراد شہید ہوچکے ہیں۔
16۔ ملک بھر کے عوام میں کرم کے بارے نفرت پھیلانے کی مذموم کوشش
کالعدم تنظیم کا صوبائی نائب صدر عیدنظر منگل پاکستان بھر میں شہر شہر جاکر خصوصا کے پی اور بلوچستان کے لوگوں میں اہلیان کرم کے حوالے سے مسلسل نفرت پھیلا رہا ہے اور انہیں راستوں میں اہلیان کرم کو نشانہ بنانے پر اکساتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ڈیرہ اسماعیل خان اور ژوپ میں پاراچنار کے زائرین کے بس پر حملہ اسکی واضح مثال ہے۔
17۔ پولیس اور دیگر بھرتیاں میرٹ کے بجائے فرقہ کی بنیاد پر
کرم میں کسی بھی شعبہ میں ہونے والی بھرتیاں میرٹ کے بجائے عموما فرقہ کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ جس کی واضح مثال گزشتہ سال اور اس سال ہونے والی پولیس بھرتیاں نیز کرم سیشن کورٹ بھرتیاں ہیں۔ گزشتہ سال پولیس بھرتی کے دوران 48 میں سے صرف 14 افراد طوری بنگش سے لئے گئے ہیں، اقلیتی برادری کی 2 خواتین، جبکہ دیگر 32 افراد افغان نژاد قبائل کے ایسے افراد سے لئے گئے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ پولیس کے وضع کردہ قواعد جسمانی اور دیگر شرائط کے لحاظ سے نااہل ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ اس بات کا اقرار موجودہ ڈی پی او نے صدہ میں جی او سی اور صدہ کے قبائل مشران کے سامنے کیا کہ میں نے بھرتی کے لئے الگ قاعدہ بنایا ہے، وہ یہ کہ کرم میں بھرتیاں تحصیل کی بنیاد پر کی جائیں گی۔
18۔ لوئر مڈل کرم کی ہر طرح مراعات سے محرومی
لوئر کرم میں شامل ایک بہت بڑا علاقہ تمام بنیادی مراعات سے محروم ہے، وہ شامل تو لوئر کرم میں ہےتاہم لوئر کرم صدہ میں موجود ذمہ دار افسران انہیں لوئر کرم کے مراعات اور فنڈز دینے کو تیار نہیں۔ سرکاری نوکریوں سمیت ہر طرح کے فنڈز میں انکا حصہ صفر ہے۔