ہم اپنے فرائض کی انجام دہی میں نہ تعلل سے کام لیں گے نہ جلدی بازی کریں گے، آیت اللہ سید علی خامنہ ای
شیعہ نیوز: رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ ہم اپنے فریضے کی انجام دہی میں نہ لیت و لعل سے کام لیں گے اور نہ ہی جلدی بازی کریں گے بلکہ جو منطقی، معقول اور صحیح ہے وہ کریں گے۔
رپورٹ کے مطابق تہران کی امام خمینی عیدگاہ میں مجاہد کبیر شہید فی سبیل اللہ سید حسن نصراللہ اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے ایران کے جنرل نیل فروشان اور دیگر شہدا کی مجلس ترحیم کے بعد آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے نماز جمعہ کے خطبوں کا آغازکردیا۔
آپ نے اپنے پہلے خطبے میں فرمایا ہے کہ ہم اپنے فرائض کی انجام دہی میں نہ لیت و لعل سے کام لیں گے اور نہ ہی جلدبازی کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں : تہران کی امام خمینی عیدگاہ میں شہید سید حسن نصراللہ کی مجلس ترحیم
اس رپورٹ کے مطابق مجلس ترحیم جو رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے منعقد ہوئی اذان ظہر تک جاری رہی ۔
اذان ظہر کے بعد رہبر انقلاب اسلامی نے خطبوں کا آغاز کیا ۔
آپ کے خطبوں کے اہم ترین نکات یہ ہیں :
سید حسن نصراللہ کا صرف جسم ہمارے درمیان سے گیا ہے لیکن ان کی حقیقی شخصیت، ان کی روح ، ان کی راہ، اور ان کی آواز اسی طرح ہمارے درمیان موجود ہے اور باقی رہے گی۔ سید حسن نصراللہ نے ستمگروں، لٹیروں اور شیطانی طاقتوں کے مقابلے یمں پرچم استقامت بلند کیا اور لبنان، ایران اور عرب ملکوں سے ماورا ہوگئے تھے اور اب ان کی شہادت نے ان کی تاثیربڑھا دی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ذلیل اور شکست خوردہ دشمن چونکہ حزب اللہ، یا حماس یا جہاد اسلامی اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے والی دیگر تنظیموں کے محکم تنظیمی ڈھانچے کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، اس لئے دہشت گردی کے ساتھ لوگوں کے قتل، غیر فوجیوں کے قتل عام اور غیر مسلح لوگوں کو داغدار کرنے کو اپنی کامیابی بتاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کا نتیجہ کیا ہے؟ اس طرزعمل کا نتیجہ لوگوں کے غم غصے کی شدت اور مجاہدین، لیڈران ، اور فدکاروں کے جذبہ فداکاری میں اضافہ، خون آشام بھیڑیوں کے محاصرے کا تنگ ہونا اور بالآخر ان کے شرمناک وجود کا خاتمہ ہے۔
لبنان اور فلسطین کے پائیدار عوام ! بہادر مجاہدین اور صابر نیز قدر شناس عوام! یہ شہادتیيں زمین پر بہنے والے یہ خون اپ کی تحریک کو کمزور نہیں کرسکتے (بلکہ) زیادہ محکم کریں گے۔ ایران اسلامی میں تقریبا سن 1981 کے موسم گرما کے تین ماہ ہماری دسیوں ممتاز شخصیات دہشت گردانہ حملوں میں شہید ہوگئيں ۔ ان میں سے ایک شہید محمد بہشتی تھے۔ ایک صدر محمد علی رجائی تھے، ایک شہید باہنر تھے، آیت اللہ مدنی ، قدوسی، ہاشمی نژاد جیسے علما تھے ۔ ان میں سے ہرایک مقامی اور ملی سطح پر انقلاب کے ستون شمار ہوتے تھے۔ ان کا فقدان معمولی چیز نہیں تھی ۔ لیکن انقلاب نہیں رکا ، پیچھے نہیں گیا، بلکہ اس کی رفتار بڑھ گئی۔
اس علاقے میں استقامت ان شہادتوں سے پیچھے کی طرف نہیں پلٹے گی بلکہ کامیاب ہوگی۔ غزہ میں استقامت نے آنکھوں کو خیرہ کردیا ہے اور اسلام کو سربلند کیا ہے۔ غزہ میں (صیہونیوں کی ) تمام ترشرپسندیوں اور پستیوں کے مقابلے میں سینہ سپر ہے ۔ کوئی حریت پسند انسان ایسا نہیں ہے جو اس استقامت کو خراج تحسین نہ پیش کرے اور سفاک نیز خون آشام دشمن پر لعنت نہ بھیجے۔