مضامینہفتہ کی اہم خبریں

پاراچنار، گزشتہ سے پیوستہ، ماضی اور حال

تحریر: سیدہ نصرت نقوی

کرم ایجنسی کا صدر مقام پاراچنار جو گزشتہ کئی سالوں سے بدامنی کی لپیٹ میں ہے، جہاں سب سے زیادہ اہل تشیع برادری کو نشانہ بنانا معمول بن چکا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ ہو یا لشکر کشی پاراچنار کے عوام کو اس کا خطرہ ہمیشہ لاحق رہتا ہے اور افسوسنات پہلو یہ ہے کہ ریاست کی جانب سے اس پر کوئی اقدام نظر نہیں آتا۔ 2007ء سے لے کر 2024ء تک  اہلِ تشیع کے کانوائے/گاڑیوں پر تکفیری دہشت گردوں کے حملوں کے واقعات پیش خدمت ہیں۔

26 مارچ 2008ء:
فاٹا کے لوئر کرم علاقے میں مسلح افراد نے ایک سرکاری ایمبولینس پر گھات لگا کر راکٹوں اور بھاری مشین گنوں کا استعمال کرتے ہوئے حملہ کیا۔ جس میں 2 خواتین سمیت 7 افراد شہید اور 2 افراد زخمی ہوئے۔ ایمبولینس پاراچنار سے پشاور جارہی تھی کہ چھپری چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا۔ مقتولین کا تعلق طوری قبیلے سے تھا شہید ہونے والوں میں کیڈٹ کالج رزمک کا ایک طالب علم، ایک لیڈی ہیلتھ ورکر اور دو لیڈیز اہلکار شامل تھیں۔

19 جون 2008ء:
پیر قیوم، صدہ کے مقام پر کرنل مجید اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ لوئر کرم عطاء الرحمن کی سربراہی میں پاراچنار جانے والے مسافر کانواۓ کو طالبان، لشکرِ جھنگوی اور سپاہ صحابہ کے حوالے کیا گیا اور ان درندوں نے ان میں سے 4 افراد کو زندہ جلایا باقی افراد کو نہایت ہی بے دردی سے پتھر، اینٹ اور لوہا کاٹنے والی مشین بلینڈر اور آرے کی مشین سے ان کے سر قلم کر دیئے، ان کے ہاتھ پیر کاٹے گئے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا، ان کے جسموں کو جلایا اور مسخ کیا گیا۔ تصاویر گوگل پر موجود ہیں۔

10 جولائی 2008ء:
حکومت اور سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں اپر کرم کے لئے سبزیاں لے کر آنی والی سبزیوں سے بھری گاڑیوں پر اڑاولی گاؤں لور کرم  میں حملہ ہوا گاڑیوں کو لینڈ مائنز کے ذریعے اڑایا گیا جس میں 7 افراد شہید اور 12 زخمی ہوگئے۔

2 اپریل 2010ء
لوئر کرم ایجنسی کے علاقے چرخیل میں عسکریت پسندوں کی اہلِ تشیع کی گاڑیوں پر فائرنگ سے کئی افراد شہید جبکہ متعد زخمی ہوئے۔

•16 جولائی 2010ء
کرم ایجنسی کے علاقے چارخیل میں  تکفیری دہشت گردوں نے  پاراچنار سے پشاور جانے والی مسافر گاڑیوں پر مشتمل قافلے  پر گھات لگا کر راکٹ سے چلنے والے دستی بم سمیت بھاری ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے حملہ کیا جس کے نتیجے میں پاراچنار سے تعلق رکھنے والے 18 افراد شہید جبکہ 4 شدید زخمی ہوئے۔ اس سانحے میں متعدد افراد کو اغوا کیا گیا جن میں 6 طالب علم بھی شامل تھے۔ اس حملے میں 2 گاڑیاں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔

22 دسمبر 2010ء 
کرم ایجنسی کے علاقے چھپری میں سیکورٹی فورسز کی مدد سے پاراچنار سے پشاور جانے والے قافلے پر شدت پسندوں نے حملہ کیا جس میں کئی افراد شہید جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔

4 جنوری 2011ء
سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے عسکریت پسندوں نے کرم ایجنسی کے شہر صدہ اور پیرقیوم کے مقام پر  کھانے پینے کی اشیاء، ادویات اور دیگر سامان پاراچنار لے جانے والے قافلے پر حملہ کیا اور 7 گاڑیوں کو نذر آتش کردیا، گاڑی کے ڈرائیوروں اور کنڈکٹرز کو جلتی ہوئی گاڑیوں میں زندہ ڈالا گیا۔ اس حملے کی ویڈیو بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔

25 مارچ 2011ء 
کرم ایجنسی کے علاقے بگن میں پشاور سے پاراچنار جانے والے مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے میں کم از کم 13 مسافر شہید اور 8 زخمی ہوئے جب کہ 33 کے قریب افراد کو عسکریت پسندوں نے اغوا کرلیا تھا جن کو بعد میں کنوای میں پھینک کر شہید کیا گیا چنانچہ اس حملے میں کل ملا کر 46 افراد شہید ہوگئے تھے۔ شہید ہونے والے تمام افراد شیعہ تھے جو پاراچنار سے تعلق رکھتے تھے۔

21 جون 2022ء 
پاراچنار سے پشاور جانے والے گاڑیوں پر صدا بائے پاس پر ایف سی چیک پوسٹ پر تکفیری دہشت گردوں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ذیشان حیدر (شینگگ) شہید ہوئے۔

24 اکتوبر 2023ء
رنگ روڈ پشاور پر پاراچنار جانے والی فیلڈر گاڑی پر حملہ ہوا جس میں عارف حسین شہید ہوئے جبکہ 4 افراد زخمی ہوئے۔

26 اکتوبر 2023ء
لوئر کرم کے علاقے چارخیل میں سیکیورٹی فورسز کی موجودگی میں پاراچنار جانے والی کانوائے پر حملے کے نتیجے میں 4 افراد ناصر حسین، دو سگے بھائی ابرار حسین، مظفر حسین اور سید زمین حسین افراد شہید اور 6 زخمی ہوئے۔

27 دسمبر 2023ء
ضلع ہنگو  میں پاراچنار جانے والی مسافر گاڑی پر حملے میں 2 افراد شہید جبکہ 5 افراد زخمی ہو گئے۔ شہید ہونے والوں میں توقیر سجاد اور اعجاز حسین شہید ہوئے۔

 7 جنوری 2024ء
صدہ بازار کے قریب پاراچنار سے پشاور جانے والی دو مسافر گاڑیوں  پر مسلح افراد کے حملے میں ایک خاتون ڈاکٹر رقیہ اور ڈرائیو رحمان علی سمیت 4 افراد شہید ہو گئے۔

20 جون 2024ء
پشاور سے پاراچنار آنے والی ہائی ایس گاڑی پر سیٹھ سیف اللہ کے گھر کے قریب کے  گردوں کی فائرنگ سے ڈرائیور واجد حسین ملانہ سمیت تین افراد شہید جبکہ متعدد افراد زخمی ہوئے۔

ان تمام تفصیلات میں پاراچنار کا ماضی اور حال واضح ہے۔ اب حکومت پاکستان اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں اور وہ اس صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ میری تمام شیعہ قوم کی طرف سے پر زور اپیل ہے کہ وہ پاراچنار کے مسلئے کو فوری طور پہ حل کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں اور اس میں مظلوم کو انصاف اور حق دار کو اس کا حق دلائیں کیونکہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button