پاراچنار کے بعد اب گلگت بلتستان میں سکیورٹی کے حوالے اچھی اطلاعات نہیں ہیں، اپوزیشن لیڈر جی بی اسمبلی کاظم میثم
وزیراعلٰی خیبرپختونخواہ سکیورٹی معاملات اپنے ہاتھ میں لے نہیں سکتے تو کھلے لفظوں میں اعلان کرے کہ عام شہری اپنی ڈیفنس خود کرے۔
شیعہ نیوز : صوبائی رہنما مجلس وحدت مسلمین اوراپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی کاظم میثم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ خیبرپختونخواہ کے ضلع کرم اوچت میں دہشتگردوں کی جانب سے کانوائے پر ہونے والے حملے اور شہادتوں سے دل انتہائی غمزدہ ہے۔ یہ حملہ سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ سیاسی کارکنان کو دیواروں میں چنوانے کی بجائے دہشگردوں کا گھیرا تنگ کرتے تو ہم بہادری کی داد دیتے۔ دہشتگرد مکمل طور آزاد ہے، جو کبھی ہماری فوجی جوانوں پر حملہ کرتے ہیں کبھی چائنیز پر اور کبھی مظلوم اہلسنت اور شیعہ عوام پر کرتے ہیں۔ دوسری طرف کے پی کے کی حکومت اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔
وزیراعلٰی خیبرپختونخواہ سکیورٹی معاملات اپنے ہاتھ میں لے نہیں سکتے تو کھلے لفظوں میں اعلان کرے کہ عام شہری اپنی ڈیفنس خود کرے۔ ہم سوال کرنا چاہتے ہیں کہ اس ملک میں دہشتگرد اتنے آزاد کیوں ہے۔ پرامن شہریوں بلخصوص مکتب اہلبیت پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ ہمیشہ کوئٹہ، پاراچنار اور گلگت بلتستان ہی سافٹ ٹارگٹ کیوں ہوتا ہے۔ ریاست ہمیں سلف ڈیفنس کا حق دے دیں ہم اپنی جان و مال کی حفاظت خود کریں گے۔
ہمیں حفاظت کے لیے کسی اور کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ ٹارگٹ کلنگ ہو یا دہشتگردانہ حملہ ہماری ہی نسل کشی آخر کب رکے گی۔ ضیاءالحق کے دور سے اب تک منظم نسل کشی جاری ہے اور ہمیں ہر میدان میں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کیا ہمیں اس ملک کو بنانے کا صلہ اس طرح دیا جا رہا ہے۔ حساس ذمہ داریوں پہ تعیناتی کے لیے بھی ہمارے اوپر سوالات کھڑے جاتے ہیں۔
کیا اتحاد بین المسلمین کے لیے جدوجہد کرنے کا یہی ثمر ہے۔ ہمارے صبر کا بار بار امتحان نہ لیا جائے۔ جینے کا حق ہم سے ہی چھینا جاتا ہے۔ ہمارے خون سے یہ سرزمین رنگین ہوچکی ہے۔ ملک کی چوبیس کروڑ عوام یہ بتائے کہ اس ملک میں اہل تشیع پر حملے ہوتے ہی، اہل سنت پر حملے ہوتے ہی، اہل حدیث پر حملے ہوتے ہیں، سکیورٹی فورسز اور پولیس پر حملے ہوتے ہیں، چائنیز پر حملے ہوتے ہیں اگر کسی طبقے پر آج تک حملے نہیں ہوئے تو وہ ہمارے حکمرانوں کے آقا امریکنز ہیں۔
آج تک کسی امریکیوں پر پاکستان میں کوئی حملہ نہیں ہوتا۔ بلکہ انکی ایمبیسی کے آگے احتجاج کرنے والوں پر پولیس حملہ آور ہوتی ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا یہ حملے منظم ہیں اور اصل دشمن کو پہچاننا ہوگا۔ ہمیں دہشتگردی پر پالیسی بدلنی ہوگی۔
دہشتگردوں کو کیپیٹل سمجھنے کی بجائے ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا۔ مذاکرات نہیں بلکہ مفسدین فی الارض قرار دیکر سرکوبی کرنی ہوگی۔ تکفیری نرسریوں کو ہر صورت بند کرنی ہوگی۔ یہ بھی قبل از وقت واضح کر دوں کہ گلگت بلتستان میں سکیورٹی کے حوالے اچھی اطلاعات نہیں ہیں۔