ضلع کرم میں جاری کشیدگی قابو نہ ہوئی تو پورا خطہ فرقہ واریت کی آگ میں جل سکتا ہے
حالیہ حملے کے بعد ریاست کا اولین کام ذمہ دار عناصر کو تعین کرکے انہیں قرار واقعی سزا دینا ہونا چاہیئے۔
شیعہ نیوز : خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں گزشتہ چند ماہ سے حالات عدم استحکام کا شکار ہیں، ایسے میں جمعرات کو پیش آنے والا ہولناک واقعہ حیران کُن نہیں تھا۔ لوئر کرم میںسکیورٹی حصار میں جانے والے گاڑیوں کے کانوائے پر کیے جانے والے دہشتگردانہ حملے میں کم از کم 38 افراد شہید ہوئے جوکہ رواں سال پیش آنے والے کسی انفرادی حملے میں ہونے والی شہادتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس قافلے میں زیادہ تر شیعہ کمیونٹی کے افراد سوار تھے۔
خیبرپختونخوا کے اس خطے میں انتہاپسندی، قبائلی اور فرقہ وارانہ تنازعات میں بڑی تعداد میں سنی اور شیعہ دونوں کمیونٹیز کے افراد کی اموات ہوئی ہیں جن کی وجہ سے یہاں حالات انتہائی خطرناک رخ اختیار کرچکے ہیں۔ افسوس کے ساتھ ریاست نے طویل عرصے سے اس معاملے پر اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں یا انہیں حل کرنے کے لیے قابلِ قدر کوششیں نہیں کیں۔
رواں سال دو قبائل کے درمیان زمین کا تنازع شدت اختیار کرکے خوفناک ہوچکا ہے جس میں جولائی سے لے کر رواں ماہ تک 80 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ جاں بحق افراد میں سے بیشتر بہ ذریعہ سڑک سفر کررہے تھے۔ دو ہفتے قبل کرم کے مقامی افراد نے سڑکوں پر آکر احتجاج کیا جہاں انہوں نے امن اور سڑکوں پر حفاظت کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔ ریاست ان کے مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہی جیسا کہ سفاکانہ واقعے نے واضح کیا۔
بدقسمتی سے وفاق اور خیبرپختونخوا حکومت دونوں اس وقت سیاست کے کھیل میں اتنے مصروف ہیں کہ کرم اور صوبے کے دیگر حصوں کے حالات پر وہ توجہ نہیں دے رہے۔ بیانات جاری کردیئے جاتے ہیں، وعدے کئے جاتے ہیں لیکن خیبرپختونخوا کے عوام کو یونہی خونخوار دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے جو صوبے کے حالات کو خراب تر بنا رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے امن کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے عسکریت پسندوں کے خاتمے میں سیکیورٹی ادارے بھی ناکام ہیں۔ فرقہ واریت اور افغانستان سے قربت کے باعث کرم ایک حساس ضلع ہے جبکہ یہاں انتہاپسند گروہ اور بھاری اسلحہ بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود ریاست اس علاقے کو ہتھیاروں سے پاک کرنے میں ناکام ہے یا وہ ان قبائلی تنازعات کا معتدل حل نکالنے میں ناکام ہیں جو خونریزی کا سبب بن سکتے ہیں۔
کرم میں پیش آنے والے پُرتشدد واقعات کو نظرانداز کرنا ریاست کی بہت بڑی غلطی ہوگی۔ کرم میں عدم استحکام کی صورت حال پر قابو نہ پایا گیا تو یہ ملحقہ اضلاع میں بھی پھیل سکتی ہے اور مفاد پرست عناصر پورے پاکستان میں فرقہ وارانہ انتشار پیدا کرنے کے لیے خطے کے اختلافات کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
حالیہ حملے کے بعد ریاست کا اولین کام ذمہ دار عناصر کو تعین کرکے انہیں قرار واقعی سزا دینا ہونا چاہیئے۔ حالیہ وحشیانہ حملے کے بعد معاملات معمول کے مطابق نہیں چل سکتے اور کرم کے مقامی افراد اور خیبرپختونخوا کی کمزور کمیونٹیز کی حفاظت کے لیے تمام ریاستی اداروں کو مضبوط حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔
خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صوت حال پر تبادلہ خیال کے لیے کثیرالجماعتی کانفرنس کا انعقاد اگلے ماہ ہوگا۔ حالیہ شدت پسند حملے کے بعد کانفرنس قبل از وقت منعقد ہونی چاہیئے۔ اس کے علاوہ ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ علمائے کرام اور قبائلی عمائدین کو بھی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیئے کہ انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ بند ہو۔
ریاست نے کرم کی سیکیورٹی کے لیے اپنی کارروائیوں میں پہلے ہی کافی تاخیر کردی ہے۔ اب وقت ہے کہ پُرتشدد واقعات کا نشانہ بننے والے متاثرین کو انصاف فراہم کیا جائے، دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کا سراغ لگا کر انہیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔
رپورٹ: ڈان نیوز