
ٹرمپ کے سو دن
تحریر: رضا میر طاہر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب دوسری بار وائٹ ہاؤس میں داخل ہوئے تو وہ اپنے سیاسی کیریئر کے جائزوں میں مقبولیت کی سب سے زیادہ ریٹنگ پر فائز تھے۔ تاہم امریکی نیٹ ورک سی این این کے ایک نئے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ اقتدار میں واپسی کے 100 ویں دن ٹرمپ کی مقبولیت اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ٹرمپ کی اپنی صدارت کے پہلے 100 دنوں میں 41% مقبولیت کی درجہ بندی امریکہ میں کم از کم سات دہائیوں میں نومنتخب امریکی صدور کے درمیان سب سے کم مقبولیت کی سطح ہے۔ اس میں ٹرمپ کی اپنی پہلی مدت صدارت بھی شامل ہے۔ ٹرمپ کی کارکردگی کی منظوری مارچ سے اب تک 4 پوائنٹس گر گئی اور اب یہ سطح 7 فیصد سے نیچے ہے۔ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ صرف 22 فیصد امریکی شہری صدر کے طور پر ٹرمپ کی کارکردگی کو قابل قبول قرار دیتے ہیں، جو کہ اب تک کی کم ترین سطح ہے، جبکہ اس تعداد سے تقریباً دوگنا 45 فیصد ان کی کارکردگی کو سختی سے ناپسند کرتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز اور سینا کالج کے ایک حالیہ سروے سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ امریکی ووٹرز کا خیال ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتظامی اختیارات کو بڑھانے کی کوششوں میں اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ نتائج نے یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ امریکی ووٹرز ڈونلڈ ٹرمپ کو ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں، جو اپنے روزمرہ کے مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہے اور وہ جس طرح سے معاملات کو سنبھال رہا ہے، اس سے ان کا اپنا ووٹر بھی ناراض ہے۔ ٹرمپ کو تقریباً ہر اہم مسئلے پر منظوری کی گرتی ہوئی درجہ بندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس پر انہوں نے اپنی صدارت کے دوران توجہ دی ہے، ان مسائل کو سنبھالنے کی ان کی صلاحیت پر عوام کا اعتماد بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔
اپنی صدارت کے پہلے 100 دنوں میں، ٹرمپ نے غیر معمولی اور بے مثال اقدامات کیے ہیں اور اکثر معاملات پر متنازعہ موقف اختیار کیا ہے۔ اس نے ٹیرف کے حوالے سے ایک بے مثال مہم چلائی، جس نے عالمی نظم کو درہم برہم کر دیا۔ تجارتی میدان میں دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دور سے اب تک امریکہ کو اس طرح کی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کے اقدامات میں دنیا کے ساتھ ٹیرف کی جنگ کا دوبارہ آغاز ایک انوکھا اقدام ہے۔ ٹرمپ نے دنیا کے کئی ممالک سے امریکہ میں درآمد کی جانے والی تمام مصنوعات پر بے مثال اور بڑے پیمانے پر محصولات عائد کر دیئے ہیں اور 2 اپریل 2025ء کو ایک بے مثال اور انتہائی متنازعہ اقدام میں انہوں نے 185 ممالک اور خطوں سے درآمد کی جانے والی اشیا پر کسٹم ٹیرف لگانے کا اعلان کیا۔
ٹرمپ نے بڑھتی ہوئی اقتصادی اور تجارتی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے چین پر ایک بے مثال 145% ٹیرف لگا دیا، جس کا بیجنگ سے جوابی ردعمل سامنے آیا اور چین نے ملک میں درآمد کی جانے والی امریکی اشیا اور مصنوعات پر 125% ٹیرف لگا دیا۔ دوسری طرف ٹرمپ نے کچھ دن چین کے علاوہ دیکر ممالک پر ان محصولات کے نفاذ کی 90 دن کی معطلی جاری کر دی۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ میں اضافے کے عالمی معیشت پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔ ٹرمپ نے امریکہ فرسٹ پالیسی کے مطابق کچھ ممالک اور اداروں کو دی جانے والی امریکی غیر ملکی امداد کو بھی منسوخ کر دیا ہے، تاکہ انتظامیہ کی غیر ملکی ترجیحات کے ساتھ اس امداد کے ہم آہنگی کے بارے میں ضروری جائزہ لیں۔
اس دوران امریکی صدر نے اپنے نیٹو اتحادیوں کی تذلیل کی اور یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لیے روس کو بڑی رعایتیں دینے پر آمادگی کا اعلان کیا۔ اٹلی کے شہر روم میں پوپ کی آخری رسومات کے دوران انہوں نے یوکرائن کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے آمنے سامنے اور براہ راست ملاقات کی اور امن مذاکرات جاری رکھنے کے معاہدے کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ، ٹرمپ نے گرین لینڈ کو امریکہ کے ساتھ الحاق کرنے، کینیڈا کو ریاستہائے متحدہ کی 51 ویں ریاست بنانے اور پاناما کینال پر دوبارہ دعویٰ کرنے کی بات کی۔ سماجی نیٹ ورک ٹروتھ سوشل پر ایک نئے موقف میں ٹرمپ نے پاناما اور سویز کینال کے ذریعے امریکی تجارتی اور فوجی جہازوں کے مفت گزرنے کا مطالبہ کیا۔ ایک ایسی درخواست جس پر مصر اور پانامہ میں شدید ردعمل سامنے آیا۔
ناقدین کے ایک گروپ نے ان کے ریمارکس کو ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور قومی خود مختاری کی توہین قرار دیا۔ اس کے علاوہ، ٹرمپ کے "امریکہ فرسٹ” کے نعرے نے ان کے یورپی اتحادیوں کو الگ کر دیا ہے اور واشنگٹن کے حریفوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی اتحادی اس ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے ان کی تیاری پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔ ٹرمپ نے اس دوران متعدد ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے۔ ان میں سے اہم ترین حکم، تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر آمد کا مقابلہ کرنا اور امریکی سرزمین پر ان کی پہلے مرحلے میں شناخت پھر گرفتاری اور آخر میں ملک بدر کرنا تھا۔ اس کے علاوہ، ٹرمپ نے یونیورسٹیوں اور غیر ملکی طلباء پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک زبردست مہم شروع کی ہے، جس میں سینکڑوں طلباء کے ویزے منسوخ کر دیئے گئے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہونے والی غزہ جنگ میں اسرائیل کے جرائم اور فلسطینیوں کے قتل کے خلاف کیمپسز میں فلسطینیوں کے حامی طلباء کے مظاہروں میں شرکت پر امریکہ بھر کی یونیورسٹیوں کی سرزنش کی ہے۔ ہارورڈ، پرنسٹن، براؤن، پنسلوانیا، کارنیل اور نارتھ ویسٹرن ان یونیورسٹیوں میں شامل ہیں، جن کی فنڈنگ منجمد یا منسوخ کر دی گئی ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات سے امریکہ کو بڑا دیرپا نقصان ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ اگر ٹرمپ اپنے خیالات میں اعتدال بھی لاتے ہیں تو موجودہ افراتفری میں بہتری نہیں آسکتی۔
ماہرین کے مطابق امریکی صدر کے اپنے خیالات میں تبدیلی کے امکانات بہت کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن کے یورپی شراکت داروں سمیت کئی ممالک نے خود کو ٹرمپ کی پالیسیوں سے بچانے کے لیے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں اہم تبدیلیاں کی ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ یورپی مملک اپنے آپ کو دفاعی شعبے میں امریکہ کے بغیر مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دفاعی صنعت میں امریکی ساختہ ہتھیاروں پر انحصار کم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں، یہاں تک کہ فرانس جیسے ممالک یورپی نیٹو بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔