مشرق وسطیہفتہ کی اہم خبریں

حزب اللہ کے ہتھیاروں کے خلاف سازش کے پہلو

شیعہ نیوز:عبدالباری عطوان نے کہا ہے کہ صہیونی حکومت کی بار بار کی جارحیتیں، جو فرانس اور امریکہ کی حمایت سے انجام پا رہی ہیں، کے باوجود لبنان کے فوجی سربراہ جوزف عون کا اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے انہی دو ملکوں سے مدد مانگنا ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف "مزاحمت” ہی وہ قوت ہے جو دشمن کے مقابلے میں ڈٹ سکتی ہے۔
امریکہ و فرانس کی جانب سے اسرائیل کو حملوں کی اجازت
فلسطینی نژاد معروف تجزیہ کار اور روزنامہ "رای الیوم” کے ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے اپنے اداریے میں لبنان کے حالات خصوصاً اسرائیلی جارحیت کے تناظر میں کہا کہ صہیونی حکومت نے اتوار کی شام بیروت کے جنوبی علاقے ضاحیہ میں ایک غیر فوجی عمارت پر حملہ کیا، جس کے بعد لبنان کے صدر جوزف عون نے فرانسیسی وفد سے ملاقات میں کہا کہ لبنان چاہتا ہے کہ ملک میں صرف سرکاری فوج کے پاس اسلحہ ہو، اور دوبارہ جنگ کی زبان اختیار کرنا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرانس اور امریکہ کو چاہیے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ لبنان کے خلاف اپنی جارحیت بند کرے۔
عطوان کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں معلوم جوزف عون کیسے اُن ممالک سے اسرائیلی جارحیت روکنے کی امید لگا رہے ہیں جو خود ان حملوں کی اجازت دیتے ہیں۔ اسرائیل نہ صرف فرانس اور امریکہ بلکہ پورے مغرب پر اثر رکھتا ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب امریکہ اور فرانس نے غزہ میں اسرائیلی نسل کشی اور قحط کے خلاف بھی رسمی مذمت نہیں کی، تو وہ لبنان کے دفاع میں کیا کریں گے؟ وہ تو شاید کچھ بھی نہ کریں۔
مزید کہا گیا کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی کابینہ نے خود تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے ضاحیہ پر حملے سے پہلے واشنگٹن کو مطلع کر دیا تھا۔ لہٰذا اگر امریکہ واقعی جنگ بندی کا ضامن ہوتا تو وہ ان حملوں کی مذمت کرتا، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا اور نہ ہوگا۔
مزاحمت کے ہتھیاروں کو نشانہ بنانے اور خانہ جنگی کی سازش
عطوان نے کہا کہ صہیونی فضائیہ اب دن رات لبنان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ لبنان کے جنوبی علاقے بقاع میں عام شہریوں اور مزاحمتی شخصیات کے قتل معمول بن چکے ہیں۔ ادھر کچھ لبنانی رہنما جو مزاحمت پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے، اب یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مزاحمت کو غیر مسلح کیا جائے اور تمام اسلحہ اس فوج کو دیا جائے جو پچھلے ستر سال میں قوم کا دفاع کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اداریے میں مزید لکھا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے 3028 مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی تعجب کی بات نہیں، کیونکہ امریکہ اور اسرائیل کی نیتوں پر کبھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہم نے بارہا خبردار کیا تھا کہ یہ جنگ بندی اسرائیل کو "خطرے کے بہانے” سے لبنان کی زمینی و فضائی حدود کی خلاف ورزی کا موقع دیتی ہے۔
عطوان نے افسوس کا اظہار کیا کہ کچھ لبنانی حلقے جنگ بندی کو لبنان کے "سنہری دور” کی واپسی سمجھتے تھے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس نے ضاحیہ میں حزب اللہ کے میزائل گودام پر حملہ کیا، مگر وہاں موجود افراد نے کوئی دھماکہ یا میزائل کی موجودگی محسوس نہیں کی۔
عطوان نے واضح کیا کہ ان حملوں کا مقصد صرف دہشت پھیلانا، لبنانی حکومت اور فوج کو جھکانا اور ملکی خودمختاری کو تباہ کرنا ہے۔ صہیونی حکومت لبنان میں خانہ جنگی بھڑکانا چاہتی ہے، خاص طور پر فوج اور مزاحمت کے درمیان ٹکراؤ کی شکل میں۔ اس کے لیے وہ جنوبی لبنان میں پانچ اہم پہاڑی علاقوں پر قبضہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ لیکن آخرکار، جیسے 2000 میں ہوا تھا، انہیں مزاحمت کے زور پر نکلنا ہی پڑے گا۔
لبنان کی بقا: "فوج، عوام اور مزاحمت” کا اتحاد
عطوان نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت جاری رہے گی، جبکہ امریکہ و فرانس لبنانی رہنماؤں کی فریاد کو سننے والے نہیں۔ صرف "فوج، عوام اور مزاحمت” کا اتحاد ہی لبنان کو بچا سکتا ہے۔
مضمون کے اختتام پر کہا گیا ہے کہ مزاحمت کی فوجی و سیاسی صلاحیتوں کو بڑھانا چاہیے، نہ کہ اسے غیر مسلح کیا جائے، کیونکہ یہی واحد قوت ہے جس نے اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے، لبنان کی زمین آزاد کروائی ہے اور نیتن یاہو جیسے جرنیلوں کو شکست دی ہے۔ جیسا کہ 2000 اور 2006 میں دیکھا گیا۔ امید ہے کہ لبنانی قوم اور حکومت مزاحمت کے پیچھے کھڑے ہوں گے اور اپنے ملک کو بچائیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button