مقالہ جات

باپ بیٹا مل گئے

ڈونلڈ ٹرمپ جو کسی زمانے میں اپنے سے پہلے امریکی صدر براک اوباما پر دہشت گردی کی حمایت اور داعش کی تشکیل کا الزام عائد کرتے دکھائی دیتے تھے اب خود بھی کھلم کھلا اسی راستے پر چل نکلے ہیں۔ وائٹ ہاوس نے اعلان کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاض میں ھیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی سے ملاقات کی ہے۔ دہشت گردی کے گاڈ فادر (امریکی صدر) اور دہشت گردوں کے سرغنے کے درمیان ملاقات کی تصاویر توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ جون 2014ء میں ٹھیک ان دنوں جب ابوبکر بغدادی نے موصل کی مسجد النوری سے خلافت کا اعلان کیا تو شام میں اس کے ایک اور وفادار کمانڈر نے بھی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ اس کا نام ابو محمد الجولانی تھا۔ وہ اس سے پہلے القاعدہ میں سرگرم رکن رہ چکا تھا اور ابومصعب الزرقاوی سے اس کے انتہائی قریبی تعلقات تھے۔

ابو محمد الجولانی وہ شخص ہے جس نے پہلے النصرہ فرنٹ میں اہم ذمہ داریاں ادا کیں اور اس کے بعد اپنا نیا دہشت گرد گروہ تشکیل دیا اور اس کا نام ھیئت تحریر الشام رکھ دیا۔ یوں وہ موجودہ صدی کا معروف ترین دہشت گرد کمانڈر ہے۔ شام میں بحران کے ابتدائی سالوں میں امریکہ نے ہمیشہ یہ دعوی کیا تھا کہ وہ شدت پسند گروہوں اور دہشت گردوں کا مخالف ہے۔ لیکن جب براک اوباما حکومت کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے ای میل پیغامات وکی لیکس میں فاش ہوئے تو دنیا والوں کو معلوم ہوا کہ حقیقت کچھ اور ہے۔ ان معلومات سے ظاہر ہوتا تھا کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی بنیاد اصل میں امریکہ نے رکھی تھی اور اس کا مقصد شام میں خانہ جنگی شروع کروانا اور ایران کے بڑھتے اثرورسوخ کو لگام دینا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی 2016ء میں اپنی صدارتی مہم کے دوران مدمقابل ہیلری کلنٹن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "داعش آپ نے بنائی ہے۔”

لیکن تاریخ ایک تلخ طنز کی حامل ہے۔ اب 2025ء میں جب شام میں بشار اسد کی حکومت ختم ہو چکی ہے اور ابو محمد الجولانی کی سربراہی میں نئی نگران حکومت برسراقتدار ہے تو وہی شخص جو گذشتہ چند سال سے عالمی سطح پر مجرم قرار پا چکا تھا اور اس کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے تھے خوبصورت اور صاف ستھرا سوٹ پہن کر سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں چہل قدمی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سے شام کے صدر کے طور پر ملاقات کرتا ہے۔ وہ شخص جو کل امریکی وزارت خارجہ کی بلیک لسٹ میں شامل تھا آج خطے میں امن اور ترقی کے لیے امریکہ کا شریک بن بیٹھا ہے۔ کیا ٹرمپ بھی آخرکار وہی راستہ اختیار کرے گا جس کی وجہ سے اوباما کی سرزنش کیا کرتا تھا؟

ٹرمپ جولانی ملاقات
بدھ 14 مئی کے دن وائٹ ہاوس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ھیئت تحریر الشام کے سربراہ اور موجودہ شام کے نگران صدر ابو محمد الجولانی کے درمیان ملاقات کی خبر دی ہے۔ یہ ملاقات خلیج تعاون کونسل کے اجلاس کے وقت انجام پائی ہے۔ یہ ملاقات بند کمرے میں انجام پائی اور صحافیوں کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ وائٹ ہاوس نے اس بارے میں کوئی تفصیلات جاری نہیں کیں کہ ملاقات میں کون سے افراد شامل تھے لیکن ترکی کے خبررساں ادارے آناتولی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان بھی آنلائن طور پر اس ملاقات سے رابطے میں تھے۔ اسی طرح ٹرمپ اور جولانی کے علاوہ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی اس ملاقات میں حاضر تھے۔ رجب طیب اردگان نے امریکہ پر شام کے خلاف عائد پابندیاں ختم کر دینے پر زور دیا۔

صیہونی رژیم کی غزہ پر بمباری
جب ریاض میں یہ ملاقات جاری تھی تو دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم غزہ کی پٹی پر نہتے فلسطینیوں پر بم برسانے میں مصروف تھی۔ مزید برآں، صیہونی رژیم شام کے جنوب مغربی علاقوں پر بھی فضائی حملے جاری رکھے ہوئے تھی۔ المیادین نیوز چینل کے مطابق طرطوس کے قریب اسرائیلی ڈرون طیاروں نے حملہ کیا۔ عراق کی خبررساں ایجنسی صابرین نیوز نے بھی چند تصاویر شائع کیں جن کے ساتھ لکھا تھا: "طرطوس کے علاقے عمریت پر اسرائیلی ڈرون حملے، اینٹی ایئر کرافٹ کے فائر بھی سنے گئے ہیں۔” ان حملوں میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان کی تفصیلات ابھی تک شائع نہیں ہوئی ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کی فضائی جارحیت کے باعث ہر روز دسیوں مظلوم فلسطینی شہید اور زخمی ہو رہے ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

مختصر یہ کہ ٹرمپ اور جولانی میں ملاقات امریکہ کی خارجہ سیاست کے ایک مستقل طریقہ کار کا واضح ثبوت ہے۔ یہ طریقہ کار شدت پسند اور دہشت گرد گروہوں کو اپنے سیاسی اہداف کے لیے استعمال کرنے پر مبنی ہے۔ جب تک یہ گروہ امریکی مفادات کے لیے خطرہ سمجھے جاتے ہیں اس وقت تک وہ دہشت گرد قرار پاتے ہیں اور ان کا نام امریکہ کی وزارت خارجہ اور دیگر سیکورٹی اور مالی اداروں کی بلیک لسٹ میں شامل ہوتا ہے لیکن جیسے ہی وہ امریکہ کے مطیع ہو جاتے ہیں اور اس کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں تو ان کی حقیقت ہی بدل دی جاتی ہے۔ کل کے دہشت گرد آج کے سفارت کار اور سیاسی رہنما بن جاتے ہیں۔ گذشتہ کئی عشروں سے خطے میں امریکہ کا یہی وطیرہ رہا ہے اور وہ اسی پالیسی پر گامزن رہا ہے، چاہے افغانستان ہو، عراق ہو، شام ہو یا خطے کا کوئی اور ملک ہو۔
تحریر: علی احمدی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button