
جوہری ہتھیاروں کے مخالف، یورینئم افزودگی ہمارا قانونی حق ہے، صدر پزشکیان
شیعہ نیوز: ایرانی صدر پزشکیان نے کہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار کے خلاف ہے تاہم یورنئیم کی افزودگی کے قانونی حق سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے ایران کے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ این پی ٹی کے تحت ایران کو پرامن مقاصد کے لئے یورنئیم کی افزودگی کا حق ہے لہذا ایران اس حق سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔
عمانی سرکاری ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران کا مؤقف ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیوں کا معیار بین الاقوامی قوانین ہیں۔ ان قوانین کے مطابق ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پرامن مقاصد کے لیے خاص طور پر سائنسی تحقیق اور توانائی کے میدان میں یورینیم کی افزودگی سمیت جوہری ٹیکنالوجی پر کام کرے۔ اگر امریکہ کو ایران کے جوہری عزائم پر تشویش ہے تو اُسے یہ جان لینا چاہیے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہ کرنے کے فیصلے پر قائم ہے۔ رہبرِ معظم انقلاب اسلامی کے واضح شرعی فتویٰ کی روشنی میں ایران نے کبھی جوہری ہتھیار بنانے یا حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی، نہ ہی آئندہ کرے گا۔ ایران کی سرکاری پالیسی جس کا تعین حکومت اور قیادت کرتی ہے، ہمیشہ سے جوہری ہتھیاروں کی مخالفت پر قائم ہے اور یہ مؤقف ایران کے دفاعی نظریے کا بنیادی حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں : جنگ بندی کی امریکی تجویز غزہ میں قتل عام کو تسلسل دینے کے مترادف ہے، حماس
انہوں نے کہا کہ ایران اس بات پر بھی آمادہ ہے کہ وہ خطے اور دنیا کو یہ یقین دہانی کرانے کے لیے ہر قسم کی شفافیت اور تعاون فراہم کرے کہ جوہری ہتھیار کا حصول کبھی ایران کی پالیسی کا حصہ نہیں رہا؛ نہ ماضی میں، نہ اب اور نہ آئندہ۔ لیکن دوسری جانب ایران کبھی بھی یورینیم کی پرامن افزودگی جیسے کہ علاج، بیماریوں کی تشخیص، صحت عامہ، زراعت اور صنعتی مقاصد کے لیے ترک نہیں کرے گا، کیونکہ یہ اس کا بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حق ہے۔ کوئی ملک ایران کو یہ کہنے کا حق نہیں رکھتا کہ وہ افزودگی سے باز رہے۔ علم و ٹیکنالوجی تمام انسانیت کا مشترکہ اثاثہ ہیں اور کوئی ملک دوسرے ملک کو اس سے محروم نہیں کر سکتا۔
صدر پزشکیان نے مغربی ممالک کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو ممالک انسانی حقوق کا نعرہ لگاتے ہیں، وہی ایران کے سائنس دانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ خطے میں خواتین، بچوں، بوڑھوں اور عام شہریوں پر بم برساتے ہیں۔ ایسے عناصر ایران کو دہشت گرد کہنے کی جسارت کرتے ہیں، حالانکہ اصل خطرہ وہ خود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حقیقی خطرہ خطے کے لیے اسرائیل ہے یا اسلامی جمہوریہ ایران؟
انہوں نے کہا کہ ایران اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے ساتھ امن چاہتا ہے، لیکن ظلم اور جبر کے سامنے کبھی سر نہیں جھکائے گا۔ یہی تعلیم پیغمبرِ اسلامؐ نے دی ہے اور قرآن کریم نے اسی راہ کی رہنمائی کی ہے۔ اور ایران اسی اصول پر قائم ہے۔
ایرانی صدر نے ایک بار پھر عالمی برادری اور اسلامی دنیا سے سوال کیا ہے کہ کیا واقعی یہ قابل قبول ہے کہ ایک ملک کھلے عام نہتے عوام پر بمباری کرے؟ ایسے افراد کو نشانہ بنائے جو نہ ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں نہ کسی جنگ میں شریک ہیں۔ ان کے گھروں کو منہدم کرے، اسپتالوں اور جامعات کو تباہ کرے، سرحدیں بند کر دے، اور انسان دوستانہ امداد، دوا اور غذا تک ضرورت مندوں کو نہ پہنچنے دے؟ یہ دنیا جو خود کو مہذب اور ترقی یافتہ کہتی ہے، ان مظالم کو دیکھ کر کیسے خاموش رہ سکتی ہے؟ کون سا بیدار ضمیر ایسی تباہ کاریوں کو قبول کرے گا؟
انہوں نے زور دیا کہ اسلامی ممالک کو مل کر ان مظلوموں، خاص طور پر غزہ اور لبنان کے عوام کی فریاد کو دنیا تک پہنچانا چاہیے۔ آج نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ یورپ اور خود امریکہ کے عوام بھی ان مظالم پر آواز بلند کر رہے ہیں۔