مقالہ جات

جولان کا سودا جولانی کے ہاتھوں

 

”مرتفع گولان“ یا ”سطح مرتفع گولان“ جسے عربی میں ”ھَضبَۃُ الجَولان“ یا ”مُرتَفَعاتُ الجولان“ کہا جاتا ہے، ایک سطح مرتفع علاقہ ہے، جو ارض شام کے مغرب میں واقع ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے اس کے اردگرد، لبنان، اردن اور اسرائیل پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے کو گولان بھی لکھا جاتا ہے اور انگریزی میں گولان ہائٹس (Golan Heights) بھی کہا جاتا ہے۔ 1967ء کی چھے روزہ عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے شام کے اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ 1981ء میں اسرائیل نے اس علاقے کو اپنے علاقے میں مدغم کر لیا۔ اکثر ممالک اسرائیل کے اس قبضے کو غیر قانونی تصور کرتے ہیں۔ اگرچہ 2019ء میں امریکہ نے اس علاقے پر اسرائیل کی حاکمیت کو سرکاری طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ اس علاقے کی کل آبادی 55000 نفوس پر مشتمل ہے، جن میں 24000 عرب دروز اور 31000 اسرائیلی آبادکار ہیں۔

2024ء میں بشار حکومت کی تبدیلی اور اسرائیل کی شام میں جارحانہ کارروائیوں کے بعد سے اب تک یہ علاقہ بدامنی کا شکار ہے۔ ان حالات میں اس علاقے کی متنازعہ حیثیت ایک بار پھر دنیا کی توجہ کا مرکز ٹھہری ہے۔ بین الاقوامی طور پر اس علاقے کو عموماً شام کا مقبوضہ علاقہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ بشار الاسد کے دھڑن تختے کے بعد شام پر قابض موجودہ حکومت جو دراصل اسرائیل کے مفاد کے تحفظ کے لیے ہی وجود میں آئی ہے، اسرائیل سے اپنی سلامتی کے عوض اب شام کے اس علاقے کا سودا کرنا چاہتی ہے۔ بعض اخباری ذرائع کے مطابق شام کے موجودہ صدر احمد الشرع نے جولان کے اس متنازعہ علاقے کو اسرائیل کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔

گویا اس سے قبل بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد جس علاقے کے لیے اپنے آخری وقت تک اپنی سی جدوجہد کرتے رہے ہیں، موساد کی تخلیق کردہ حکومت اسے پلیٹ میں رکھ کر اسرائیل کو دینے پر آمادہ ہوگئی ہے۔ گویا حافظ الاسد نے اسرائیل سے لڑ کر جس علاقے کو آزاد کرایا تھا، جولانی کی حکومت اسے اسرائیل کو تحفے میں دینا چاہتی ہے۔ موجودہ حکومت کا اپنے ابتدائی ایام میں دعوٰی تھا کی اگر اسرائیل نے شام پر حملہ کیا تو وہ جولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل سے آزاد کروا لے گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ احمد الشرع کی حکومت اسرائیل کے دعوے کے مطابق ”بائیبل“ میں اس کی جو حدود بیان کی گئی ہیں، ان کی تشکیل میں اسرائیل کی معاون ہے۔ بائیبل کی گھڑی گئی روایات کے مطابق اسرائیل کی سرحد مصر کی ”وادی العریش“ (نیل نہیں) سے دریائے فرات تک ہے۔

اس سرزمین میں موجودہ اسرائیل، فلسطین، اردن اور شام کے علاقے شامل ہیں۔ سیریا کی حکومت کے بارے میں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وہ ”ابراہیمی معاہدے“ کا حصہ بھی بننے جا رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اسرائیل اور شام کی حکومتیں اس توسیع پسندانہ عزائم کو کس حد تک پایہء تکمیل تک پہنچا سکتی ہیں۔ جولان کے اس علاقے پر اب بھی کہیں نہ کہیں سے کوئی ڈرون آ گرتا ہے۔ ”مسجد اموی“ کے جس منبر پر احمد الشرع براجمان ہے، اس منبر کی تاریخ بڑی دل دہلا دینے والی ہے، جبکہ دوسری طرف اسرائیل ابھی بارہ روز جنگ کے نتیجے میں بننے والے کھنڈرات کو سمیٹنے میں ہی مشغول ہے۔
تحریر: سید تنویر حیدر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button