مقالہ جات

کیا اسرائیل دوبارہ ایران پر حملہ کرے گا

حالیہ دنوں میں ایران پر نئے اسرائیلی حملے کے امکان کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں اور تجزیئے سامنے آریے ہیں۔ تہران یونیورسٹی کے پروفیسر ابراہیم متقی سمیت بعض ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ حالیہ شواہد اور پیش رفت کے پیش نظر اسرائیل مستقبل قریب میں، ممکنہ طور پر آنے والے ہفتوں میں امریکی حمایت سے اپنی فوجی کارروائی شروع کرسکتا ہے۔ دوسری جانب مہدی محمدی جیسے تجزیہ کاروں کے ایک گروپ کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کو مسائل کا سامنا ہے اور جنگ کے بارے میں سب کچھ ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ محمدی کہتے ہیں کہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اگلا تنازعہ واقع ہوگا یا نہیں؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس میں کیا خصوصیات ہوں گی۔؟

محمدی کے مطابق جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے، وہ تصادم کے عمل میں محض ایک عارضی تعطل ہے۔ ایک تعطل جو دشمن کے محاذ پر دباؤ اور مسائل کی وجہ سے لایا گیا ہے اور یہ دباؤ کسی بھی وقت ختم ہوسکتا ہے اور تنازعہ دوبارہ شروع ہوسکتا ہے۔ محمدی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جنگ کے ممکنہ آغاز کے لیے کوئی خاص وقت متعین نہیں کرنا چاہیئے۔ ان کی رائے میں یہ مسئلہ ٹائمنگ کا نہیں بلکہ ایک آپریشنل، اسٹریٹجک اور سیاسی مسئلہ ہے۔ اس وجہ سے، سوال کا جواب "کیا جنگ ہوگی؟” یقینی طور پر مثبت ہے؛ لیکن اس کا وقت اور اسٹریٹجی مختلف متغیرات پر منحصر ہے۔

پروفیسر محمدی نے تین اہم وجوہات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صیہونی حکومت کی حدود اور درپیش چیلنجوں کی وضاحت کی ہے۔ جب تک صیہونی حکومت اور اس کے حامی اپنے مسائل اور رکاوٹوں کو حل نہیں کر لیتے (اسکے لئے وقت کوئی اہمیت نہیں رکھتا) دوبارہ حملہ نہیں کریں گے۔ اگر وہ کل اپنے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ بغیر وقت ضائع کئے فوراً تنازعہ دوبارہ شروع کرسکتے ہیں۔ اس مسئلے میں کئی ہفتے، کئی مہینے یا کئی سال بھی لگ سکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مسائل کبھی بھی حل نہ ہوں اور جنگ کبھی بھی نہ ہو۔ یہ سب کچھ ان مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے امریکہ اور اسرائیل کی صلاحیت پر منحصر ہے۔

صیہونیوں کے مسائل اور رکاوٹیں کیا ہیں؟
1۔ ایران کا داخلی استحکام
محمدی کے مطابق حالیہ جنگ میں صیہونی حکومت کے لیے سب سے اہم رکاوٹ ایران میں سماجی یکجہتی اور قومی اتحاد تھا۔ ایک ایسا اتحاد جو قیادت کے گرد قائم ہوا۔ یہ سیاسی ماہر اس بات پر زور دیتا ہے کہ دشمن کی اسٹریٹجک ناکامی کی سب سے اہم وجہ ایران میں اندرونی استحکام ہے، اسرائیل کو داخلی انہدام کا وہم تھا، جو غلط ثابت ہوا۔ ایران کی اندرونی صورت حال کے بارے میں ان کا تجزیہ انتہائی پرامید تھا اور اس کے ساتھ ایک قسم کا معلوماتی وہم بھی تھا۔۔۔۔ لیکن زمینی حقائق اس خیال کے بالکل برعکس برآمد ہوئے۔ محمدی کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت کے خلاف عوامی نفرت میں اضافہ ہوا اور جنگ بندی کے بعد بھی ایران میں رائے عامہ جارح حکومت کے خلاف مزید سخت ضربیں لگانا چاہتی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے دشمن کی انٹیلی جنس سروسز کو اپنے تجزیوں پر نظرثانی کرنا پڑی۔ دشمن اب ملک کے اندر تفرقہ پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور سیاسی میدان میں دونوں طرف کی انتہاء پسندانہ روش کا فائدہ اٹھا کر وہ قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ ایرانی رائے عامہ کے خلاف ایک شدید نفسیاتی جنگ چھیڑی جا رہی ہے، جس کا ٹارگٹ ایران کا داخلی استحکام ہے۔

2۔ صیہونی حکومت کے اندرونی محاذ کی کمزوری
اس نقطہ نظر کے مطابق صیہونی حکومت کی دوسری کمزوری اس کے داخلی محاذ پر نظر آتی ہے۔ 12 روزہ جنگ کے تجربئے کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اسرائیل کے ہوم فرنٹ کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا، جس کی گذشتہ چند دہائیوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسرائیلی تھنک ٹینکس کے بقول اگلی جنگ میں ہمیں اس طرح لڑنا چاہیئے کہ ہم جنگ کو اس طرح ختم کریں کہ تیسری جنگ شروع نہ ہو۔ ہم اگلی بار بالکل مختلف حالات میں لڑیں گے۔ بہرحال اس وقت صیہونی حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی علاقوں میں بے چینی، خوف اور سماجی مایوسی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ نئی جنگ شروع کرنے کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔

3۔ امریکہ اہم فیصلہ ساز ہے
ڈاکٹر محمدی نے یہ بھی کہا ہے کہ اس بات پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیئے کہ حکمت عملی کے بارے میں حتمی فیصلے بنیادی طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ہوتے ہیں اور صیہونی حکومت ان فیصلوں کو انجام دینے اور نافذ کرنے والی پراکسی کا کردار ادا کرتی ہے۔ لہذا صیہونی حکومت کے لیے تیسرا بڑا چیلنج نئی جنگ کی صورت میں امریکی حمایت کی غیر یقینی صورتحال ہے۔ اس سیاسی ماہر کا خیال ہے کہ امریکہ نے اندازہ لگایا ہے کہ ایران پر حملہ ملک کے اندر تکمیلی اقدامات کے بغیر کامیاب نہیں ہوگا۔ نتیجے کے طور پر، سیاسی دباؤ، نفسیاتی جنگ، پابندیاں اور سماجی بحران سازی کو ایک ساتھ ملٹری حملے کے ساتھ نافذ کیا جانا چاہیئے۔

محمدی مزید کہتے ہیں کہ اگر ایران کے اندر ان کے لیے ایک قابل قدر آپریشنل ونڈو کھلتی ہے تو وہ تمام مشکلات کے باوجود خطرات مول لے سکتے ہیں۔ ایسے میں ایران میں موثر قوتوں کی سب سے اہم ذمہ داری غیر متوقع یا سرپرائز کو روکنا اور قومی ہم آہنگی کو برقرار رکھنا ہے۔ محمدی کا خیال ہے کہ سب کچھ ایرانی حکام اور فیصلہ سازوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو کتنا مضبوط کرتے ہیں اور اپنی سماجی یکجہتی کو کس حد تک برقرار رکھتے ہیں۔ ہتھیاروں اور دفاع جیسے مسائل کو کس طرح حل کرتے ہیں اور اتحادی حکومتوں کے ساتھ مضبوط بیرونی معاہدوں کو کس طرح لیکر چلتے ہیں۔ اگر ان تمام شعبوں کو مضبوط کیا جائے تو اسرائیلی فوج کے حملے اور بیرونی تصادم کے امکانات کم ہو جائیں گے۔
تحریر: میلاد منیعی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button