
شیخ نعیم قاسم کی مقاومتی بلاک کی کامیابی میں آیت اللہ خامنہ ای کے کردار پر گفتگو
شیعہ نیوز: حزب اللہ لبنان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے المیادین ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں غزہ کی جنگ میں حزب اللہ کے کردار، شمالی محاذ کی موجودہ صورت حال، پیجرز دھماکوں کی حقیقت اور رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے خطے میں اثرورسوخ پر تفصیل سے گفتگو کی۔
رپورٹ کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سربراہ شیخ نعیم قاسم نے المیادین ٹی وی کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو کی اور مشرق وسطی میں صہیونی حکومت اور مقاومتی محاذ کے درمیان جاری جنگ پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ غزہ پر صہیونی حملے کے بعد حزب اللہ کی قیادت نے ایک مشاورتی اجلاس میں طے کیا کہ ابتدائی طور پر غزہ کی حمایت محدود پیمانے پر کی جائے گی اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں : بوسنیا سے فلسطین تک، ایران مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہے، عراقچی
انہوں نے وضاحت کی کہ چند ہفتے بعد حزب اللہ اس نتیجے پر پہنچی کہ مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے لیے وسیع جنگ میں داخل ہونا ضروری نہیں۔ حزب اللہ کا مقصد شمالی اسرائیل میں صہیونی فوج کو الجھانا، صہیونی شہریوں کی نقل مکانی کو بڑھاوا دینا اور اس علاقے میں سماجی، اقتصادی و سیکیورٹی بحران پیدا کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ حزب اللہ نے اسرائیلی فوج کو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانے کو بھی اپنی حکمت عملی کا حصہ بنایا۔
شیخ نعیم قاسم نے انکشاف کیا کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کے ساتھ طوفان الاقصی آپریشن سے متعلق کوئی پیشگی رابطہ نہیں تھا، اس لیے حزب اللہ اس وسیع جنگ میں شمولیت اختیار نہ کر سکی۔ انہوں نے واضح کیا کہ حزب اللہ کو اس آپریشن کی پہلے سے اطلاع نہیں تھی اور اس بنا پر وہ جنگ میں مکمل طور پر داخل نہیں ہوئی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ القسام بریگیڈ کے سربراہ شہید محمد ضیف کی طرف سے حزب اللہ کو ایک پیغام موصول ہوا تھا جس میں کہا گیا کہ موجودہ سطح پر حزب اللہ کی حمایت کافی ہے اور مطلوبہ اہداف اسی سے حاصل ہوسکتے ہیں۔
شیخ نعیم قاسم نے مزید انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس ایسی معلومات موجود ہیں جن کے مطابق ایران کی قیادت کو بھی 7 اکتوبر کے حملے کی پیشگی اطلاع نہیں تھی۔ یہاں تک کہ حماس کے بعض بیرونِ غزہ رہنما بھی اس آپریشن سے لاعلم تھے۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل انٹرویو میں پیجر بم دھماکوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بڑی خفیہ اسرائیلی سیکیورٹی سازش تھی، جس کا مقصد حزب اللہ کی اندرونی قیادت اور مزاحمتی ڈھانچے کو نقصان پہنچانا تھا۔
حزب اللہ نے پیجرز کی خرید و فروخت کے حوالے سے ایک غیر معمولی سیکیورٹی خلا محسوس کیا، جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان پیجرز میں ایسے دھماکہ خیز مواد نصب کیے گئے تھے جو عام سیکورٹی اسکینرز سے شناخت نہیں ہو سکتے تھے۔ ان پیجرز کے ذریعے حزب اللہ کے افراد یا قیادت کو نشانہ بنانے کی سازش کی جارہی تھی۔
شیخ نعیم قاسم نے بتایا کہ دھماکوں سے دو روز قبل کچھ مشکوک علامات سامنے آئیں، جن میں پیجرز کا ٹوٹ جانا یا خرابی شامل تھی۔ اس صورتحال نے اسرائیل کو مجبور کیا کہ وہ اپنی کارروائی پہلے شروع کرے، کیونکہ انکشاف کا خدشہ بڑھ چکا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ترکی میں مزید 1500 بم نصب پیجرز موجود تھے۔ لبنان کے عبوری وزیراعظم نجیب میقاتی نے ترک صدر رجب طیب اردوغان سے رابطہ کرکے ان پیجرز کو ناکارہ بنانے کی درخواست کی۔ یہ تمام پیجرز ترکی میں تباہ کر دیے گئے، جو ممکنہ طور پر لبنان یا دیگر مقامات پر منتقل کیے جانے تھے۔
شیخ نعیم قاسم نے واضح کیا کہ حزب اللہ کی صفوں میں غدار عناصر بہت محدود ہیں۔ دشمن ڈیجیٹل نگرانی، ڈرونز اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے معلومات حاصل کررہے تھے۔ تنظیم کے اندرونی حلقے یا رہنما سیکیورٹی لحاظ سے محفوظ ہیں، اور اگر کسی بھی قسم کا اندرونی نفوذ ثابت ہوا تو وہ عوام کے سامنے لاکر کارروائی کریں گے۔
شیخ نعیم قاسم نے جنگ بندی کے باوجود لبنان پر اسرائیلی حملوں کے بارے میں کہا کہ اسرائیل اگر یہی روش جاری رکھے تو ہم اسرائیل کے مسلسل تجاوزات پر تا ابد صبر نہیں کریں گے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ وہ فی الحال اس بارے میں بات نہیں کریں گے کہ حزب اللہ کب اور کس طرح اپنی حکمت عملی بدلے گی، لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ لبنانی عوام اور مزاحمتی تنظیم کبھی شکست تسلیم نہیں کریں گے۔
ان کے مطابق حزب اللہ اس وقت تشکیل نو اور بحالی سے گزر رہی ہے اور اگر اسرائیل نے جنگ چھیڑی تو وہ اس کا پوری طاقت سے جواب دیں گے۔
شیخ نعیم قاسم نے حزب اللہ کے 500 درمیانے اور بھاری ہتھیاروں کے گودام تباہ کرنے کے صہیونی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب جنوبی لیطانی کے بارے میں بات کرتے ہیں، حالانکہ لبنان کا جغرافیہ وسیع ہے۔ میں اس کی تفصیلات بتانے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔
شیخ نعیم قاسم نے ایران کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے جنگ میں براہ راست مداخلت نہ کرنے کا درست فیصلہ کیا، کیونکہ ایسا ہوتا تو امریکہ خود میدان جنگ میں اتر آتا، اور یہ سراسر اسرائیل کے فائدے میں ہوتا۔ ایران نے اپنے کردار کو مالی، فوجی، سیاسی اور میڈیا کے محاذ پر محدود رکھا اور یہی عمل مزاحمتی بلاک کو پائیدار رکھنے میں کلیدی ثابت ہوا۔
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ ایران کے کردار سے مطمئن ہے اور سمجھتی ہے کہ ایران اپنی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور کسی میدان میں پیچھے نہیں ہٹا۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہای روزانہ غزہ اور لبنان کی تازہ صورتحال کی مکمل نگرانی کرتے رہتے ہیں۔ ان تک باقاعدہ رپورٹس پہنچائی جاتی رلہیں، اور وہ ان واقعات پر گہری توجہ دیتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران فکری اور اسٹریٹجک رہنمائی کے ذریعے مقاومت کے ساتھ میدان میں موجود ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے عرب دنیا میں صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کے قیام کی کوششوں کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ شام کو کسی بھی صورت اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے عمل میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ حزب اللہ کو یقین ہے کہ شامی عوام اس سازباز کو مسترد کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں شام کے عوام پر اعتماد ہے، یہ ان کی بھی ذمہ داری ہے اور ہماری بھی، کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کیا جائے۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ اسرائیل نے 600 مربع کلومیٹر سے زائد علاقے پر قبضہ جما رکھا ہے، جن میں جولان اور قنیطرہ شامل ہیں۔شام پر قابض گروہ اسرائیل کی مسلسل جارحیت کے سامنے بے بس ہو چکا ہے کیونکہ شامی فوج کی جنگی طاقت کمزور کر دی گئی ہے۔ اسرائیل اپنی ہوائی اور زمینی کارروائیاں مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن دمشق کی طرف سے کوئی سنجیدہ جواب نہیں آ رہا۔
شیخ نعیم قاسم نے انکشاف کیا کہ ہمیں عرب اور مغربی ذرائع سے ایسی رپورٹس ملی ہیں کہ بعض قوتیں شام کی نئی حکومت کو حزب اللہ کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہیں، اور شام کو ایک افراتفری کا میدان بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ امید ہے یہ اطلاعات غلط یا مبالغہ آمیز ہوں، البتہ حزب اللہ مکمل طور پر محتاط اور تیار ہے۔ اگرچہ حزب اللہ شام کے اندرونی امور میں مداخلت نہیں کرتی تاہم ایسے خطرات کو نظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔
شیخ قاسم نے لبنانی صدر جنرل جوزف عون کی پالیسیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ اسرائیل کو لبنان سے پیچھے ہٹنا چاہیے۔ یہ موقف خالص قومی ہے اور حزب اللہ کے اصولوں سے ہم آہنگ بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ قومی دفاعی حکمت عملی کے تحت فوج کے ساتھ مسلسل گفتگو و ہم آہنگی میں مصروف ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے خبردار کیا کہ امریکہ اور بعض عرب ممالک لبنانی فوج کو حزب اللہ کے خلاف صف آرا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد فوج اور مزاحمت کے درمیان تصادم پیدا کرنا ہے، لیکن جنرل جوزف عون ان چالوں سے بخوبی واقف ہیں اور اسے فتنہ سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لبنان کی طاقت کا راز تین ستونوں میں ہے: فوج، عوام، اور مزاحمت۔ اگر حزب اللہ اور مزاحمتی ڈھانچہ موجود نہ ہوتا تو اسرائیل آگے بڑھ چکا ہوتا۔ یہی طاقت، لبنان کو تحفظ دیتی ہے۔