
ہتھیار نہیں دے پائے، خوراک تو پہنچاؤ
اب تو غزہ سے ایسی تصاویر سامنے آرہی ہیں، جو کسی وقت صومالیہ اور یمن سے دیکھنے کو ملتی تھیں۔ چہرے پر نمایاں ہڈیاں، دھنسی ہوئی آنکھیں، پژمردہ چہرے، توانائی کی شدید کمی اور اس پر مسلسل بمباری کا خوف، بار بار کی نقل مکانی۔ غزہ میں کتنوں کا مکان ہوگا، یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے، تاہم اس کے باوجود اہل غزہ بار بار سفر کی زحمت سے دوچار ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2.3 ملین کی آبادی میں سے 1.9 ملین مہاجر ہیں۔ غزہ کی تقریباً پوری آبادی اس وقت خوراک اور پینے کے صاف پانی کے لیے امدادی اداروں کی محتاج ہے۔ مختلف عالمی ادارے غزہ میں قحط کی پیشین گوئی کر رہے ہیں۔ خوراک کی کمی یا قحط کے مرحلے کا اندازہ لگانے والے ادارے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) کے مطابق غزہ کی پوری آبادی کو قحط کا شدید خطرہ لاحق ہے۔
ادارے کی پیشین گوئی جو، مئی سے ستمبر 2025ءتک کی ہے، اس کے مطابق غزہ کی پوری پٹی کو بحرانی سطح کی غذائی عدم تحفظ آئی پی سی فیز 3 یا اس سے اوپر کے قحط کا سامنا ہے۔ اس میں سے، دس لاکھ سے زیادہ افراد (آبادی کا 54 فیصد) ایمرجنسی فیز 4 میں ہیں اور تقریباً 470,000 افراد (22 فیصد) شدید غذائی عدم تحفظ آئی پی ایس فیز 5 کی تباہ کن سطح کا سامنا کر رہے ہیں، جو وسیع پیمانے پر فاقہ کشی کی نشاندہی کرتا ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق غزہ میں بچوں کی غذائی فراہمی کی صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق روزانہ 110 سے زیادہ بچوں کا غذائی قلت کا علاج کیا جا رہا ہے۔ پیش گوئیوں کے مطابق، اگلے 11 مہینوں (مئی 2025-اپریل 2026ء) میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 71,000 بچوں کے شدید غذائی قلت کا شکار ہونے کی توقع ہے، جن میں سے 14,100 کیسز شدید نوعیت کے ہوں گے۔
فروری 2025ء کے مقابلے میں، اسکریننگ کیے گئے بچوں میں شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کا تناسب تقریباً دوگنا ہوگیا ہے، جو غزہ کی پٹی میں غذائی صورتحال کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے۔ OCHA نے سال کے آغاز سے 15 جون 2025ء تک، 18,741 بچوں کو شدید غذائی قلت کے باعث ہسپتال میں داخل کرنے کی اطلاع دی۔ اس عرصے کے دوران تقریباً 17,000 حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو بھی شدید غذائی قلت کے علاج کی ضرورت ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بحران عام غذائی قلت سے بڑھ کر ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے، جہاں آبادی کے سب سے کمزور طبقے کو جان لیوا اثرات کا سامنا ہے۔ اکتوبر 2023ء سے اب تک کم از کم 66 بچے براہ راست غذائی قلت سے متعلقہ حالات کی وجہ سے جاں بحق ہوچکے ہیں، اس میں وہ بچے شامل نہیں، جو غذائی قلت سے بڑھنے والی قابل علاج بیماریوں سے جاں بحق ہوئے۔
اسرائیل کی جانب سے مکمل محاصرہ نرم کرنے کے بعد سے 400 سے زیادہ افراد خوراک کی تقسیم کے مراکز تک پہنچنے کی کوشش میں شہید ہوچکے ہیں۔ ایک تشویشناک پہلو غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) جیسے نئے، امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ امدادی میکانزم کا تعارف ہے، جسے اقوام متحدہ نے غیر مؤثر، عسکری اور خطرناک قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن نے مئی 2025ء میں امداد تقسیم کرنا شروع کی، جو واضح طور پر اقوام متحدہ کے قائم شدہ نظام کو نظرانداز کرتا ہے۔ GHF کا دعویٰ ہے کہ وہ مقامی کمیونٹی رہنماؤں کے ذریعے براہ راست کمیونٹیز تک امداد پہنچاتا ہے، تاہم اسے اقوام متحدہ اور دیگر غیر سرکاری تنظیموں نے غیر مؤثر، خطرناک اور امداد کو سیاسی رنگ دینے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ رپورٹس کے مطابق GHF کے تقسیم کے مقامات پر نمایاں تشدد اور اموات ہوئی ہیں۔
اقوام متحدہ کی قیادت میں امدادی فریم ورک اور GHF جیسے نئے، امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ اداروں کے درمیان واضح اور اکثر متصادم نظام موجود ہے۔ اقوام متحدہ اور بڑی غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے GHF کو واضح طور پر مسترد کرنا اور اس کے ساتھ تعاون نہ کرنا، اس کے غیر مؤثر اور عسکری نوعیت کے بارے میں تنقید کے ساتھ، نہ صرف آپریشنل طریقوں بلکہ انسانی ہمدردی کے اصولوں اور کنٹرول پر بنیادی اختلاف کو ظاہر کرتا ہے۔ غزہ کا تباہ شدہ صحت کا شعبہ زخمیوں کی بڑی تعداد اور غذائی قلت کے شکار شیر خوار بچوں کی آمد سے مغلوب ہے۔ جزوی طور پر فعال ہسپتال روزانہ بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے واقعات سے بھرے ہوئے ہیں۔ کچھ ہسپتالوں کو براہ راست نشانہ بنایا گیا ہے، جبکہ دیگر ایندھن کی قلت اور جبری انخلاء کے احکامات سے شدید متاثر ہیں۔ اہم طبی سامان شدید طور پر کم ہوچکا ہے، آدھے سے زیادہ پہلے ہی اسٹاک کی کمی کا شکار ہیں۔
WHO نے غزہ میں صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے مقامات اور وسائل پر 686 حملوں کی اطلاع دی ہے، جس سے 122 صحت کی سہولیات (بشمول 33 ہسپتال) اور 180 ایمبولینسیں متاثر ہوئیں۔ صفائی کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں، جس سے بیماریوں کا تیزی سے پھیلاؤ ہو رہا ہے۔ جاری جنگ نے آبادی پر ناقابل بیان نفسیاتی اثرات مرتب کیے ہیں۔ بین الاقوامی برادری نے امداد کی بلا روک ٹوک ترسیل اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے، لیکن زمینی حقائق بین الاقوامی بیانات اور حقیقی اثرات کے درمیان ایک گہرا تضاد ظاہر کرتے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوری، غیر مشروط انسانی رسائی اور ایک پائیدار جنگ بندی ناگزیر ہے۔ امت مسلمہ جس کا غزہ سے فقط انسانی نہیں، ایمانی رشتہ بھی ہے، اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا۔
ہم اہل غزہ کو دفاع کے لیے ہتھیار تو مہیا نہیں کرسکتے، ہمیں ان تک خوراک پہنچانے کا بہرحال کوئی انتظام کرنا چاہیئے۔ او آئی سی نامی مردہ تنظیم کا اس ایک نکاتی ایجنڈے پر فی الفور اجلاس طلب کیا جائے۔ بمباری کے بعد فلسطینیوں کو بھوک سے قتل کرنا ایک انسانی جرم ہے، ان کو کنسٹریشن کیمپس میں منقتل کیا جا رہا ہے، ایک وقت کے کھانے کے لیے گھنٹوں لمبی قطاروں میں لگنا پڑتا ہے، آٹے میں نشہ آور ادویات ملائی جا رہی ہیں، قطاروں میں کھڑے شہریوں پر گولیاں برسائی جاتی ہیں اور امت مسلمہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہے۔ خداوند کریم اہل غزہ کی مشکلات کو فی الفور حل فرمائے اور اپنے خزانے سے ان کے لیے رزق کا اہتمام فرمائے، آمین۔
تحریر: سید اسد عباس