
امریکہ اور اسرائیل نے ایران سے جنگ بندی کی درخواست کیوں کی؟ برطانوی تحقیقاتی مرکز کا انکشاف
شیعہ نیوز: برطانیہ کے Royal United Services Institute (RUSI) دفاعی اور سیکورٹی تحقیقاتی مرکز کی تازہ تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر ایران کے ساتھ صیہونی حکومت اور امریکہ کی جنگ طوالت اختیار کرجاتی تو، تل ابیب اور واشنگٹن سنجیدہ بحران سے دوچار ہوجاتے کیونکہ ایسی جنگ کے لیے ان کی کوئی تیاری نہیں تھی۔
آر یو ایس آئی کی رپورٹ میں آیا ہے کہ ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ طویل المدت جھڑپ میں تبدیل ہوسکتی تھی لیکن امریکہ اور اسرائیل نے جنگ بندی کی درخواست کرکے اسے روکنے کو ترجیح دی۔
اس رپورٹ میں درج ہے کہ انقلاب کے بعد ایران نے صیہونی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جس کی جانب سے تل ابیب ہمیشہ پریشان رہا۔ دوسری جانب اسرائیل نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنے یا اس کی رفتار کم کرنے کی مسلسل کوشش کے تحت ایران پر سائبر حملہ کیا اور ایرانی سائنسدانوں کا قتل بھی؛ اور اب یہ کشیدگی براہ راست جنگ کی شکل میں سامنے آگئی۔
یہ بھی پڑھیں : امریکی خبررساں ویب سائٹ کی مبینہ رپورٹ “ایک گندا سیاسی کھیل”، روس
رپورٹ میں درج ہے کہ اس جنگ کی تجویز پہلی بار صیہونی فوج کے جنرل "ایال زامیر” نے مئی 2022 میں دی تھی اور جون 2025 میں اس شخص نے جو اس بار صیہونی فوج کا چیف آف اسٹاف بن چکا تھا، حملے کی کمان سنبھالی۔
آر یو ایس آئی کی رپورٹ میں درج ہے کہ اسرائیل نے اس جنگ میں اپنے اصل حامی یعنی امریکہ کو جنگ شروع کرنے اور فوجی اور سیاسی حمایت کے لیے اعتماد میں لیا وہ بھی ایسی حالت میں کہ واشنگٹن کو روس یا چین سے ممکنہ جھڑپ کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل کے حجم اور دوسری جانب ایسی جنگ میں شامل ہونے کے لیے امریکی عوام کی مخالفت پر گہری نظر رکھنا تھی اور انہیں وجوہات کی بنا پر امریکہ جلد از جلد اس جنگ کو ختم کرنا چاہتا تھا۔
امریکہ کی مکمل حمایت کے باوجود اس بات کا پورا امکان موجود تھا کہ واشنگٹن بیچ جنگ میں پیچھے ہٹ جائے اور تل ابیب ایران سے ایسی مشکل جنگ میں اکیلا نہیں رہنا چاہتا تھا۔
Royal United Services Institute (RUSI) کے تجزیہ کے مطابق، اقتصادی اور معاشی مسائل بھی باعث بنتے ہیں کہ اسرائیل صرف قلیل المدت جنگیں برداشت کرسکے کیونکہ جنگ طویل ہونے کی صورت میں صیہونی حکومت کی معیشت کو سنجیدہ بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس جنگ بندی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ 2 سال لگاتار ہنگامی حالت میں رہنے کے بعد، صیہونی آبادکار نفسیاتی لحاظ سے تھک چکے ہیں اور صیہونی حکومت ایران کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کا تختہ پلٹنے میں بھی ناکام ہوچکی ہے اور امریکہ کو بھی عراق اور افغانستان میں حکومت تبدیل کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوا تھا۔
اس تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران اور مقبوضہ سرزمینوں کے مابین 1500 کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور اسرائیلی فضائیہ اتنے طویل فاصلے پر مسلسل کارروائی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی، لگاتار ایئر ری فیولنگ کی اس میں صلاحیت نہیں ہے اور طویل المدت جنگ ان طیاروں کی مرمت اور انہیں مستحکم رکھنے پر بھی اثرانداز ہوسکتی ہے۔
کلیدی میزائلوں اور بموں کی پیداوار کا سسٹم بھی طویل المدت جنگ کے لیے تیار نہیں اور "ایرو(Arrow)” دفاعی میزائلوں کی قلت کا امکان بھی بڑھ رہا تھا۔
Royal United Services Institute (RUSI) نے اس تجزیاتی رپورٹ کا نتیجہ اس شکل میں پیش کیا ہے کہ اسرائیل، اسٹریٹیجک، اقتصادی اور فوجی رکاوٹوں کی وجہ سے طویل جنگ کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے بالخصوص ایسی حالت میں کہ اس کے اہداف بھی حقیقت پسندی پر پورے نہیں اترتے۔