دنیا

ایران پر یورینیم کی افزودگی ترک کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا، روس

شیعہ نیوز: روسی وزارت خارجہ نے زیرو افزودگی معاہدے پر ایران کو مجبور کرنے کی خبروں کو بے بنیاد قرار دے کر سیاسی پروپیگنڈہ قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق روسی وزارت خارجہ نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ ماسکو نے تہران پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ ایک ایسے ایٹمی معاہدے کو قبول کرے جس میں یورینیم کی افزودگی صفر ہو۔

تفصیلات کے مطابق، ایک بیان میں روسی وزارت خارجہ نے امریکی ویب سائٹ آکسیوس کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ایران کو ایک ایسے امریکی حمایت یافتہ ایٹمی معاہدے پر راضی کرنے کی کوشش کی جس میں ایران مکمل طور پر یورینیم کی افزودگی کا عمل ختم کر دے۔

یہ بھی پڑھیں : علامہ غلام حسین وجدانی کو ناحق سعودی قید میں 3ماہ گذر گئے، حکومت پاکستان رہائی میں ناکام

تہران ٹائمز کے مطابق، آکسیوس کی رپورٹ میں نامعلوم باخبر ذرائع کے حوالے سے کہا گیا کہ پوٹن نے یہ مؤقف نہ صرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بلکہ ایرانی اعلی حکام تک بھی پہنچایا، اور اس فریم ورک کی حمایت کی جس کے تحت ایران کو اپنی افزودگی کی تمام سرگرمیاں ترک کرنا ہوں گی۔

ماسکو نے ان دعوؤں کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ روسی وزارت خارجہ ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ ہم ان خبروں کو سیاسی مقاصد کے تحت پھیلائی گئی گمراہ کن مہم کا حصہ سمجھتے ہیں۔

وزارت نے زور دے کر کہا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر روس کا مؤقف ہمیشہ سے واضح اور مستقل رہا ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف سیاسی اور سفارتی طریقوں سے ہی نکالا جانا چاہیے۔ مزید یہ کہ ماسکو تمام فریقوں کو قابل قبول حل تلاش کرنے میں مدد دینے کے لیے پرعزم ہے۔

بیان میں بین الاقوامی میڈیا اداروں پر زور دیا گیا کہ وہ صرف مستند ذرائع پر انحصار کریں، سنجیدہ تجزیہ کریں اور جھوٹی یا گمراہ کن خبریں پھیلانے سے گریز کریں۔

واضح رہے کہ ہفتے کے روز شائع ہونے والے آکسیوس کے مضمون نے ایک بار پھر اس قیاس آرائی کو ہوا دی کہ روس تہران اور واشنگٹن کے درمیان ایٹمی سفارت کاری کی بحالی میں کس حد تک کردار ادا کر رہا ہے۔ رپورٹ میں دعوی کیا گیا تھا کہ صدر پوٹن نے ایک ایسے ایٹمی معاہدے کی حمایت کی ہے جس میں ایران کو یورینیم افزودگی کی تمام صلاحیتوں سے محروم کر دیا جائے گا۔ یہ مؤقف امریکا کے سخت گیر حلقوں کی دیرینہ خواہش رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button