
شام کا تازہ محاذ
تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
فتنوں میں گھرے ہوئے ملکِ شام میں اب ایک نیا محاذ کھل گیا ہے۔ اس بار ابتدائی طور پر جو علاقہ میدان کارزار بنا ہے وہ ”سویدا“ کا علاقہ ہے۔ سویداء اردن کی سرحد سے جڑا ہوا خطہ ہے۔ اس علاقے میں ”دروز“ نسل آباد ہے۔ دروز اپنی روایات اور اعتقادات کے اعتبار سے باقی مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ بعض انہیں مسلمان سمجھتے ہیں اور بعض نہیں۔ دروزوں کی جدوجہد کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ شام میں اس وقت یہ ایک اقلیتی فرقہ ہونے کی وجہ سے علویوں کی طرح شام پر قابض جولانی یا الشرح حکومت کے مظالم کا شکار ہیں۔ اسرائیل اپنے مفادات کے لیے ان کے حقوق کی بات کرکے انہیں استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیل اور موجودہ شامی حکومت جہاں بعض معاملات میں ایک صفحے پر نظر آتے ہیں وہاں دروزوں کے معاملے میں ان کے باہمی اختلافات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
اسرائیل جو اپنے مفادات کے لیے سیریا کو تقسیم کرنا چاہتا ہے، اس کی نظر میں احمدالشرح کی حیثیت ایک ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں ہے۔ دروزوں کے بہانے وہ جولانی حکومت کو نشانے پر رکھنا چاہتا ہے۔ دروزوں اور شامی سیکیورٹی افواج میں تازہ تصادم کسی بڑے تصادم کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ دروز قبائل اس سے قبل داعشی تکفیری عناصر کے خلاف بھی برسر پیکار رہے ہیں۔ تازہ لڑائی میں شام کی موجودہ تکفیری حکومت نے دروزوں کے اہم شہر سویداء اور اس کے مضافات میں ایک بڑے حملے کا آغاز کردیا ہے۔
سویداء کے سنی شام کی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب تک دروزوں اور سرکاری افواج کے درمیان مسلح چھڑپوں میں متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دروز اپنے علاقے کے دفاع کے لیے بڑے پیمانے پر اپنی عوام کو موبلائیز کر رہے ہیں اور مختلف مقامات پر جولانی کی افواج کا دلیری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ دروزوں نے اپنے لشکر میں عورتوں اور بچوں کو بھی بھرتی کرنا شروع کردیا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی طیاروں نے السیداء کی طرف بڑھتے ہوئے الشرح کی فوج کے کانوائے پر بمباری کی ہے۔
یوں لگتا ہے کہ السیداء شہر میں عنقریب دنیا تلواروں کے ایک طوفان کا مشاہدہ کرے گی۔ شام جو پہلے ہی باہمی لڑائیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، موجودہ فساد اسے باہمی کشت و خون کے کسی نئے مرحلے کی طرف لے جائے گا۔ بشار الاسد کی حکومت اگرچہ ایک کمزور حکومت تھی لیکن کسی نہ کسی طرح اپنی کمزور بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔ اس کی حکومت کو ہٹا کر جنہوں نے اس کی جگہ اپنی مرضی کی بساط بسانے کی کوشش کی تھی، اب وہ بساط ان کے لیے کانٹوں کی سیج بنتی جا رہی ہے۔