
’اسرائیلی ایجنٹ‘ جیفری ایپسٹین جس کی ’خودکشی‘ کئی سوالات چھوڑ گئی
شیعہ نیوز:آپ نے جیفری ایپسٹین کے بارے میں تو سنا ہی ہوگا جو ایک ارب پتی سرمایہ کار، فنانسر اور بچوں کے ساتھ جنسی جرائم میں سزا یافتہ تھا۔ اگر ہم امریکی محکمہ انصاف کی بات پر یقین کریں تو جیفری ایپسٹین نے ایک سخت سیکیورٹی والی جیل میں خودکشی کرلی تھی۔
ایک دور تھا جب جیفری ایپسٹین عالمی اشرافیہ میں انتہائی بااثر مانا جاتا تھا اور وہ بھی ان پارٹیز کی بدولت جس کی میزبانی وہ اپنی گرل فرینڈ گسلین میکسویل کے ہمراہ کیا کرتا تھا۔ گسلین میکسویل اب بچوں کی جنسی اسمگلنگ کے جرم میں 20 سال کی سزا کاٹ رہی ہے۔ یہ پارٹیز جیفری کی 6 لگژری پراپرٹیز میں منعقد کی گئی تھیں جن میں جیفری کا گھر جوکہ نیویارک کا سب سے بڑا گھر ہے اور معروف ’ایپسٹین آئی لینڈ‘ شامل ہیں۔س کے علاوہ جیفری کے پاس 4 پرائیویٹ جیٹ تھے جو اس کے ہائی پروفائل مہمانوں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے جن میں ایک بوئنگ 727 بھی شامل تھا جسے ’لولیتا ایکسپریس‘ کا نام دیا گیا تھا۔ 2019ء میں صحافی نک برائنٹ نے رپورٹ کیا کہ جیفری ایپسٹین کی رہائش گاہوں اور ہوائی جہازوں میں خفیہ کیمرے نصب ہیں جوکہ مبینہ طور پر اس مقصد کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں کہ امیر اور طاقتور لوگوں کو سمجھوتہ کرنے کے لیے بلیک میل کیا جاسکے۔
اگرچہ برسوں تک جیفری ایپسٹین کے حوالے سے مبینہ غیرقانونی جنسی سرگرمیوں اور ٹریفکنگ کی خبریں گردش کرتی رہیں لیکن پہلی باضابطہ شکایت 2005ء میں درج ہوئی کہ جب 14 سالہ لڑکی کے والدین نے دعویٰ کیا کہ ان کی بیٹی نے جیفری کے گھر میں جنسی استحصال کا سامنا کیا۔ اس کے بعد ایک کے بعد ایک الزام لگانے والے سامنے آتے گئے جن میں سے زیادہ تر ہائی اسکول کی طالبات تھیں جو پیسے کمانے کے آسان طریقوں اور ماڈلنگ کی لالچ میں ان چیزوں میں ملوث ہوئیں۔
جیفری ایپسٹین نے ایک پُرکشش و پُرتعیش زندگی گزاری اور وہ اکثر ضمانت کی معمولی رقم ادا کر کے یا استغاثہ کے ساتھ سودے کرکے مشکل سے نکل جاتا تھا۔ 2008ء میں لمبی قید کی سزا کا سامنا کرنے کے بجائے اس نے ’نان پروسیکیوشن معاہدہ‘ کیا کہ جب اس نے ایک نابالغ کے ساتھ جنسی تعلقات کا اعتراف کیا لیکن اسے کم سزا یعنی صرف 13 ماہ قیدِ بامشقت کی سزا ہوئی۔ یہ فیصلہ اس وقت اتنا چونکا دینے والا تھا کہ اطلاعات کے مطابق، اس وقت کے ایک امریکی پراسیکیوٹر الیگزینڈر اکوسٹا نے کہا کہ انہیں ایپسٹین کو ہلکی سزا دینے کا کہا گیا تھا کیونکہ ایپسٹین کا ’ایک خفیہ ایجنسی سے تعلق تھا‘۔
لیکن کس ایجنسی سے؟ اس کی دولت اور طاقت میں غیرمعمولی تیزی سے اضافہ اس حوالے سے اشارہ دے سکتا ہے۔ اس نے کالج تک مکمل نہیں کیا تھا اور وہ نیو یارک مین ہیٹن کے ایک امیر علاقے میں ڈالٹن اسکول نامی نجی تعلیمی ادارے میں فزکس اور ریاضی پڑھاتا تھا۔ یہاں اس نے کسی طرح سرمایہ کاری بینک بیئر اسٹرنز کے سربراہ ایلن گرینبرگ کی توجہ حاصل کی جو نامعلوم وجوہات کی بنا پر جیفری ایپسٹین سے بہت زیادہ متاثر تھے اور انہوں نے جیفری کو اپنی کمپنی میں ملازمت دی حالانکہ جیفری کو فنانس کا کوئی تجربہ نہ تھا۔
اس کے بعد ایلن نے جیفری کو ایک یہودی ارب پتی لیسلی ویکسنر سے متعارف کروایا جس نے چارلس برونف مین کے ساتھ مل کر 1991ء میں ’میگا‘ گروپ کی بنیاد رکھی تھی۔ اس گروپ کو طاقتور یہودی تاجروں کے نیٹ ورک کے طور پر بیان کیا جاتا ہے جو اسرائیل کے لیے خیرات اور مدد پر مرکوز ہے۔
سابق امریکی جاسوس جان شِنڈلر کے مطابق، اسرائیلی انٹیلی جنس نے میگا کو امریکی جاسوسی اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا، شِنڈلر کا خیال ہے کہ جیفری ایپسٹین ان اسرائیلی انٹیلی جنس سرگرمیوں سے منسلک تھا۔
سابق اسرائیلی جاسوس ایوی بین میناش نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایپسٹین اور گھسلین میکسویل نے اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس کے لیے کام کیا اور وہ ممتاز افراد کو بلیک میل کرنے کے لیے ’ہنی ٹریپس‘ بنانے میں مہارت رکھتے تھے۔
وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک میڈیا بیرن (میڈیا آؤٹ لیٹس کے مالک) رابرٹ میکسویل جو گسلین میکسویل کے والد بھی ہیں اور ایک بدنام فنانسر اور اسرائیلی انٹیل اثاثے کے طور پر جانے جاتے تھے، انہوں نے اس کام کے لیے جیفری ایپسٹین کو بھرتی کیا۔
رابرٹ میکسویل کے برونف مین کے ساتھ بھی قریبی تعلقات تھے جس کی وجہ سے ان کے روابط میگا گروپ کے اسرائیلی جاسوسی نیٹ ورکس کے ساتھ جڑے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ رابرٹ میکسویل نے PROMIS نامی سافٹ ویئر پروگرام کے ورژن کو مختلف حکومتوں تک پھیلانے میں مدد کی جس میں ریکارڈنگ کے لیے جاسوسی آلات نصب تھے۔
سافٹ ویئر کا یہ ورژن اسرائیلی انٹیلی جنس کو خفیہ طور پر ان کی جاسوسی کرنے کی اجازت دیتا تھا۔ جن اداروں کو نشانہ بنایا گیا ان میں سے ایک لاس الاموس نیشنل لیبارٹری تھی جو امریکا کے اعلیٰ جوہری تحقیقی مراکز میں سے ایک ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ میگا گروپ کے دیگر اراکین نے اسے ممکن بنانے میں سہولت کاری کی۔ جیفری ایپسٹین کی طرح رابرٹ میکسویل کی بھی 1991ء میں پُراسرار حالات میں موت ہوئی تھی جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ اس نے بھی خودکشی کی ہوگی۔
اس کہانی کی یہ واحد ’خودکشی‘ نہیں ہے۔ ایپسٹین پر الزام لگانے والی وکٹوریہ جیوفرے حال ہی میں اپنے گھر میں مردہ پائی گئی تھی جس کی موت کو خودکشی قرار دیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وکٹوریہ نے 2019ء میں ٹویٹ کیا تھا کہ ’میں عوامی طور پر بتا رہی ہوں کہ میں کسی بھی صورت میں خودکشی نہیں کررہی ہوں۔۔۔ بہت سارے برے لوگ مجھے (خاموش) دیکھنا چاہتے ہیں‘۔ جیوفرے کی موت کے تین سال بعد جین لک برونیل جو اس کیس سے منسلک ایک فرانسیسی ماڈل ہے، کی اپنے جیل کے کمرے میں ان کی پھندا لگی لاش ملی جسے مبینہ طور پر خودکشی قرار دیا گیا۔
جہاں تک ایپسٹین کا تعلق ہے تو یہ بات دلچسپ ہے کہ اس کی موت کے دن اس کے جیل کے کمرے کے باہر موجود دونوں گارڈز سو رہے تھے حالانکہ ہر نصف گھنٹے بعد ایپسٹین کو چیک کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ جیل میں ایپسٹین کے کمرے کا ساتھی بھی ایک دن پہلے اس کمرے سے جا چکا تھا کہ جس دن ایپسٹین نے خودکشی کی۔ واضح رہے کہ اس کے جیل کے دروازے کے باہر موجود سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج میں پورے ایک منٹ کی فوٹیج غائب ہے۔