
حضرت سید علی خامنہ ای، امت کے عظیم رہنماء
پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے۔ اسکی بنیاد کلمہ طیبہ" لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ" پر رکھی گئی ہے۔ ہم مسلمانان برصغیر نے قیام پاکستان سے پہلے ہی آزادی فلسطین کے عظیم کاز کی مکمل حمایت کی ہے۔ آج بھی پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعزاز رکھتا ہے۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ رہبر معظم کی حمایت فلسطین کی مدد ہے۔ اسرائیلی دھمکیوں کے سامنے خاموش رہنا بہت بڑی بزدلی اور غداری ہے۔ ہمیں اسرائیل کیخلاف مضبوط بیانہ تشکیل دینا ہوگا اور اپنی جوان نسل کو کذب و افتراق سے نکال کر انہیں بالکل سچ بتانا ہوگا۔
شیعہ نیوز: اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر حضرت سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ امت مسلمہ کے ایک عظیم رہنماء ہیں۔ دور حاضر میں ان جیسا بے باک اور بہادر لیڈر امت مسلمہ میں کوئی نہیں ہے۔ ان کا کردار امت مسلمہ کے تحفظ، دفاع اور استقامت کے حوالہ سے بے مثال ہے۔ اسی طرح قبلہ اول کی آزادی کے حوالہ سے بھی ان کا کردار نہایت ہی مؤثر اور تاریخی ہے۔ وہ صرف ایک نظریاتی رہنماء نہیں ہیں بلکہ ایک عملی اور مزاحمتی رہنماء کے طور پوری دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ ایرانی رہبر نے وحدت امت اور بیداری امت میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ وحدت امت پر بہت زور دیا ہے۔ وہ شیعہ سنی اختلاف کو دشمنان اسلام کی ایک گہری سازش قرار دیتے ہیں۔ اپنے خطابات میں انہوں نے مسلمانوں کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر جمع رہنے کا کہا ہے۔ انہوں نے اپنے خطبات میں ہمیشہ یہ کہا ہے کہ مسلمانوں کو صیہونیت، صیہونی ریاست اور اس کے سرپرستوں امریکہ اور یورپ کے مقابلہ میں کھڑا ہونا چاہیئے۔ انہوں نے ارض فلسطین کو امت کا دل قرار دیا ہے اور مسئلہ فلسطین کو امت کے اہم اور مرکزی مسئلے کے طور پر دیکھا ہے۔ وہ پوری دنیا میں ہر سال یوم القدس کو منانے کا درس دیتے ہیں۔
حضرت سید علی خامنہ ای کا موقف صیہونی ظالمانہ ریاست اسرائیل کے حوالہ سے ہمیشہ جراءت مندانہ اور بہت واضح رہا ہے۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ اسرائیل امت مسلمہ کے جسم پر کینسر کا ایک پھوڑا ہے، جو بہت جلد ختم ہو جائے گا۔ امریکہ، یورپ اور بعض اسلامی ممالک بھی مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستی فارمولے کو ہی سمجھتے ہیں جبکہ رہبر معظم نے اس دو ریاستی حل کو ہمیشہ مسترد کیا ہے اور ان کا اس سلسلہ میں نقطہ نظر بہت واضح ہے۔ وہ اکثر کہتے ہیں کہ فلسطین صرف اور صرف فلسطینیوں کا ہے۔ وہ مکمل فلسطین من النہر الی البحر(نہر سے بحر تک) کی بات کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوری ایران نے حضرت سید علی خامنہ ای کی قیادت میں آزادئ فلسطین کے لیے کام کرنے والی مزاحمتی جماعتوں حماس، حزب اللہ، اسلامی جہاد اور یمن کی انصاراللہ کو ہر طرح کی مدد پہنچائی، تاکہ وہ صیہونیت کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں۔ ان تنظیموں نے اسرائیل کو اندر سے کھوکھلا کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی مدبرانہ قیادت پوری امت اسلامیہ کے لئے باعث فخر ہے، محسن نقوی
ان جماعتوں کی قربانیوں کے نتیجے میں اسرائیل کمزور ہوا اور ماہ (جون 2025ء) گذشتہ کی بارہ روزہ جنگ میں ایران نے اسرائیل کو درد ناک شکست دی۔ یہ حضرت سید علی خامنہ ای کی قیادت ہی ہے، جس نے اسرائیل کے ارد گرد مزاحمتی بلاک کو بہت مضبوط کیا ہے۔ ایران اسرائیل جنگ میں رہبر معظم نے اپنی عسکری قوت کو جس طرح لڑایا اور جس طرح اپنی عوام کو مطمئن رکھا اور اتحاد و یگانگت کی فضا کو بھی برقرار رکھا، وہ آپ کی عظیم قیادت کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ آج پوری دنیائے اسلام امریکہ کے سامنے اس کی وفاداری میں سربسجود ہے اور ابراہیمی معاہدے کی حمایت میں رطب اللسان ہے، مگر حضرت علی خامنہ ای اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینی عوام کے ساتھ ڈٹ کھڑے ہیں۔ وہ نارملائیزیشن کو ایک بڑی خیانت قرار دے رہے ہیں۔ وہ فلسطین میں جہاد کرنے والے تمام گروہوں کو امداد فراہم کر رہے ہیں اور ان کے شھیدوں کو “شھدائے اسلام” قرار دے رہے ہیں۔
رہبر معظم کی قائدانہ صلاحیتوں کا پورا عالم اسلام معترف ہوگیا ہے۔ اب وہ صرف ایران کے ہی رہنماء نہیں رہے بلکہ پورے عالم اسلام کے لیڈر بن چکے ہیں۔ ایرانی حکام نے ان کی تقاریر اور ملفوظات کو دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا ہے، جس کی بدولت نوجوان نسل کو رہبر کے نظریات سے شناسائی حاصل ہوئی ہے۔ نوجوان نسل ان کے قریب آئی ہے اور انہیں ایک اسلامی ہیرو کے طور پر دیکھنے لگی ہے۔ وہ اسلامی انقلاب کے روحانی وارث کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ عالم اسلام کے تمام مظلوموں کی بات کرتے ہیں۔ وہ فلسطین، کشمیر اور یمن کے علاوہ دنیائے اسلام کے تمام مظلوموں کی دستگیری کرتے ہیں۔ وہ اہل اسلام میں بیداری کی تحریک بپا کر رہے ہیں۔ وہ استعمار، استکبار اور صیہونزم کے مقابلے میں ایک مضبوط بیانیے کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ ان کی ولولہ انگیز قیادت نے پوری امت کے عوام کو اسلام مخالف قوتوں کے مقابلے میں متحد کر دیا ہے۔ دشمنوں کے خلاف انہوں بہت مضبوط صف بندی کی ہے۔
انہوں نے امت کو وحدت کا پیغام دیا، اسرائیل کو فکری اور عسکری دونوں محاذوں پر شکست فاش دی۔ ان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے مغربی قوتوں حضوصاً امریکہ، اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی شاطرانہ چالوں کو تشت از بام کیا ہے۔ آج ان کو شھید کرنے کی منصوبہ بندی بھی اسی وجہ سے کی جا رہی ہے کہ انہوں نے اسلام مخالف قوتوں کا بہت احسن طریقے سے رستہ روکا ہے۔ امریکہ عالم اسلام کو مکمل شکست دینے اور اسے غلام بنانے کے لیے بڑی سرعت سے آگے بڑھ رہا ہے۔وہ رہبر معظم کو اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے، اسے لیے انہیں راستے سے ہٹانا چاہتا ہے۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ بطور مسلم ہم اپنی ذمہ داریوں کا شعور حاصل کریں اور ان کو بطریقہ احسن ادا بھی کریں۔ ہمیں امت میں یہ شعور بیدار کرنا ہوگا کہ رہبر معظم پر حملہ صرف ایران پر حملہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے عالم اسلام پر حملہ ہے۔ یہ فلسطین پر حملہ ہے اور یہ غزہ پر حملہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران نے امریکہ و اسرائیل کو شکست دی، زمام اختیار اب ایران کے ہاتھ میں ہے، محمود قماطی
ہمیں اپنے معاشروں میں فرقہ واریت سے بالا تر ہوکر مزاحمت و مقاومت کی حمایت کرنی ہوگی۔ علماء اور خطباء اپنے خطبوں میں، لکھاری اپنی تحریروں میں، اینکرز اپنے پروگراموں میں اور سیاسی قائدین اپنی تقریروں میں اسرائیل کے مظالم اور اس کی بربریت کو اجاگر کریں۔ رہبر معظم اس وقت قبلہ اول کے جانثار سپاسی اور مزاحمت کا ایک عظیم استعارہ ہیں۔ ان کے خلاف کسی قسم کی جارحیت پوری امت کے خلاف اعلان جنگ تصور ہوگا۔ رہبر اب ایک علاقائی اور صرف ایرانی لیڈر نہیں ہیں، وہ پوری امت اسلامیہ کی مزاحمتی علامت ہیں۔ اگر اسرائیل انہیں شھید کرنا چاہتا ہے تو اس کا بالکل واضح مطلب یہ ہے کہ وہ حق کی آواز کو خاموش کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے بطور امت ہمیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ ان کی زندگی کا تحفظ اب صرف ایرانیوں کی ہی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ذمہ داری پوری امت کے کندھوں پر ہے۔
پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے۔ اس کی بنیاد کلمہ طیبہ” لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ” پر رکھی گئی ہے۔ ہم مسلمانان برصغیر نے قیام پاکستان سے پہلے ہی آزادی فلسطین کے عظیم کاز کی مکمل حمایت کی ہے۔ آج بھی پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعزاز رکھتا ہے۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ رہبر معظم کی حمایت فلسطین کی مدد ہے۔ اسرائیلی دھمکیوں کے سامنے خاموش رہنا بہت بڑی بزدلی اور غداری ہے۔ ہمیں اسرائیل کے خلاف مضبوط بیانہ تشکیل دینا ہوگا اور اپنی جوان نسل کو کذب و افتراق سے نکال کر انہیں بالکل سچ بتانا ہوگا۔