مقالہ جات

شام کی تقسیم کا پنڈورا باکس کھل گیا

تحریر: فرشید پرہام

شام کے صوبے السویداء میں جولانی رژیم اور دروزی قبائل کے درمیان خونریز تصادم جاری ہے جس میں اب تک دونوں طرف سے سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اس بحران کو اپنے لیے سنہری موقع تصور کر رہی ہے اور فضائی حملے انجام دے کر صوبہ السویداء میں دروزی قبائل کی حمایت کرنے میں مصروف ہے۔ اسرائیل شام کو چند حصوں میں تقسیم کر کے اپنا اسٹریٹجک ہدف حاصل کرنے کے درپے ہے۔ اگرچہ تل ابیب کا دعوی ہے کہ اس کی جانب سے جولانی رژیم کی فورسز پر فضائی حملے دروزی اقلیت کی حمایت کرنا ہے لیکن خطے کے جاری حالات اور موجودہ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ موقف ایک دھوکہ ہے اور اس کی آڑ میں اسرائیل شام میں گہری مداخلت انجام دینے کے درپے ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کافی عرصے سے خطے کے ممالک کو تقسیم کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔

غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے شام میں فوجی مداخلت کے پس پردہ اہداف اس سے کہیں زیادہ وسیع ہیں جو بیان کیے جا رہے ہیں اور صیہونی رژیم دراصل شام میں عدم استحکام پھیلانے، شام کی قومی خودمختاری کو کمزور کرنے اور شام کے جنوبی حصے میں نئی سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیاں لانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ دوسری طرف اگرچہ شام پر حکمفرما موجودہ رژیم کے سربراہ ابومحمد الجولانی نے بارہا مذہبی اور قومی اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرنے پر زور دیا ہے لیکن اس کے زیر فرمان ایسے بہت سے عناصر موجود ہیں جنہوں نے واضح طور پر اقلیتوں پر ظلم ڈھائے ہیں۔ اسی سلسلے میں جولانی رژیم سے وابستہ گماشتوں نے شام کے صوبے السویداء میں بھی دروزی اقلیت کے افراد کو شدت پسندانہ اقدامات کا نشانہ بنایا اور ان کا قتل عام کرنے کے علاوہ دروزی نشین علاقوں میں وسیع پیمانے پر لوٹ مار بھی کی ہے۔

شام کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ کل بروز منگل سیکورٹی فورسز نے صوبہ السویداء میں بڑے فوجی آپریشن کا آغاز کیا ہے۔ الجزیرہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق شام کی وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے زیر فرمان فورسز نے نئے سیکورٹی اقدامات انجام دیتے ہوئے سویدا شہر کا محاصرہ کر لیا ہے۔ صوبہ سویدا میں سیکورٹی فورسز کے کمانڈر نے بھی اعلان کیا کہ منگل کی صبح 8 بجے سے سویدا شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ اس نے سویدا شہر کے مکینوں سے درخواست کی کہ وہ گھروں میں ہی رہیں اور باہر نہ نکلیں تاکہ باغیوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اسی طرح اس نے باغی فورسز کو خبردار کیا کہ وہ شہری عمارتوں کو سیکورٹی فورسز پر حملوں کے لیے استعمال نہ کریں۔ اس نے مذہبی رہنماوں اور مسلح گروہوں کے سربراہان پر زور دیا کہ وہ اپنی قومی اور انسانی ذمہ داریاں ادا کریں اور شہر میں امن و امان کے قیام میں سیکورٹی فورسز سے تعاون کریں۔

یاد رہے اتوار سے صوبہ سویدا کے نواح میں دروزی قبیلے سے وابستہ مسلح گروہوں اور خانہ بدوش قبائل کے درمیان شدید جھڑپیں شروع ہیں۔ شام میں دروزی قبائل کی تعداد تقریباً 7 لاکھ کے قریب ہے۔ شام کے حکام نے اعلان کیا ہے کہ ان جھڑپوں میں سو سے زیادہ افراد ہلاک اور زخمی ہو گئے ہیں جبکہ شام کے دیگر ذرائع ہلاک ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ بیان کر رہے ہیں۔ جب سے شام پر تکفیری دہشت گرد گروہ ھیئت تحریر الشام کا قبضہ ہوا ہے، اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم بھی بھرپور انداز میں فوجی مداخلت کر رہی ہے۔ دروزی قبائل اور جولانی رژیم کے درمیان مسلح جھڑپوں میں بھی غاصب صیہونی رژیم دروزی قبائل کی حمایت میں فضائی حملے انجام دینے میں مصروف ہے۔ صیہونی فوج کے ریڈیو چینل کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے کل جولانی رژیم کا ایک ٹینک تباہ کر دیا تھا۔

صیہونی رژیم کی شام میں فوجی مداخلت ایسے وقت انجام پا رہی ہے جب میڈیا ذرائع صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو، وزیر جنگ یسرائیل کاتس اور چیف آف آرمی اسٹاف ایال زمیر کے درمیان ہنگامی اجلاس کی خبریں دے رہے ہیں۔ رویٹرز نے اعلان کیا ہے کہ نیتن یاہو اور کاتس نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ دروزی قبائل کی حمایت کے لیے فوراً شام کے صوبہ السویداء میں داخل ہو جائے۔ نیتن یاہو اور کاتس کے مشترکہ بیانیے میں کہا گیا ہے کہ جولانی رژیم کی جانب سے سویداء میں فوجی آپریشن اس اصول کی خلاف ورزی ہے جس کے مطابق یہ علاقہ اسلحہ سے پاک علاقہ قرار دیا گیا تھا۔ اس بیانیے میں دعوی کیا گیا ہے کہ صیہونی رژیم خود کو دروزی قبائل کی حمایت کا پابند تصور کرتی ہے کیونکہ اس نے دروزی قبائل سے "عہد اخوت” باندھ رکھا ہے۔

اسرائیل شام میں موجود قومی اور مذہبی خلیج کا غلط فائدہ اٹھا کر اس ملک میں انارکی اور ممکنہ تقسیم کا پنڈورا باکس کھول رہا ہے۔ یہ منظرنامہ خطے کی اسٹریٹجک مساواتوں میں ہلچل مچا کر نئے بحرانوں کو جنم دے سکتا ہے۔ شام کے جنوبی حصے میں اسرائیل کی فوجی مداخلت ایک طویل المیعاد حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد شام کے اندرونی بحرانوں کی مدد سے تل ابیب کی سلامتی یقینی بنانا ہے۔ اسرائیل اپنی سرحدوں کے قریب دفاعی گہرائی بڑھانے کے درپے ہے۔ یوں اسرائیل شام کے دروزی نشین حساس علاقوں میں اپنا اثرورسوخ بھی قائم کر پائے گا اور کم ترین اخراجات سے خطے میں اپنی پوزیشن بھی مضبوط بنانے میں کامیاب ہو سکے گا۔ اسرائیل دروزی اور کرد قبائل کی حمایت حاصل کر کے علاقائی سطح پر اپنی اتحادی قوتوں میں بھی اضافہ کرنا چاہتا ہے جبکہ شام میں بدامنی نے اسے سنہری موقع فراہم کر دیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button