مقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

خدا ہمارے ساتھ ہے

گذشتہ روز رہبر معظم انقلاب اسلامی سے ایران کی عدلیہ کے ارکان کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ایک انگوٹھی پہن رکھی تھی، جس پر کندہ تھا:«اِنَّ مَعِیَ رَبّی»، ’’بے شک میرا رب میرے ساتھ ہے۔‘‘ یہ مقدس عبارت سورہ الشعراء کی آیت نمبر 62 کا حصہ ہے۔ «کَلّا اِنَّ مَعِیَ رَبّی سَیَهدین»

آیت کا شان نزول
الشعراء کی آیت نمبر 62 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی داستان کے ایک انتہائی حساس اور فیصلہ کن لمحے میں نازل ہوئی تھی۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو مصر سے باہر لے جا رہے تھے اور فرعون اور اس کی فوجیں ان کا تعاقب کر رہی تھیں۔ بنی اسرائیل سمندر تک پہنچ گئے اور آگے کا راستہ بند ہوگیا، پیچھے سے فرعون کے لشکر کے گھوڑوں کے کھروں کی آوازیں قریب آتی جا رہی تھی۔ اس نازک صورت حال میں موسیٰ (ع) کے ساتھی خوف زدہ اور پریشان ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں "انا لمدرکون” ’’یقیناً ہم ضرور پکڑے جائیں گے۔‘‘ آیت 62 اس پریشانی اور خوف کے عالم میں حضرت موسیٰ کا سہارا بنی۔ یہ خداوند کا ایک ایسا جواب ہےو جو قرآن میں خدا پر بھروسے، ایمان اور اعتماد کے حوالے سے ایک خوبصورت ترین جملوں میں سے ایک بن گیا ہے۔

آیت کے الفاظ کی تشریح
كَلَّا کا لغوی معنی "کبھی نہیں” یا "ہرگز نہیں” ہےو جو حضرت موسیٰ کے اصحاب کے خوف اور مایوسی کا واضح رد ہے۔ "إِنَّ مَعِيَ رَبِّي”، "بے شک میرا رب میرے ساتھ ہے” یعنی خدا کی رفاقت نہ صرف بیرونی مدد کے درجے میں، بلکہ موسیٰ کے ساتھ ایک قسم کی ذاتی موجودگی اور رفاقت کے حوالے سے موسیٰ علیہ السلام کے ہمراہ ہے۔ "سَيَهْدِينِ”، "جلد ہی وہ میری رہنمائی کرے گا” یعنی خدا مجھے اس مشکل صورتحال سے نکلنے کا راستہ دکھائے گا۔

موسیٰ علیہ السلام کا مکمل ایمان
فرعون کے خوف اور مایوسی کے عروج پر، اپنے ساتھیوں کے برعکس، موسیٰ (ع) نے کوئی پریشانی ظاہر نہیں کی۔ اُن کے الفاظ خدا کی مدد پر اُن کے اٹل اور پختہ ایمان کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ جملہ "بے شک میرا رب میرے ساتھ ہے” گہرے ایمان اور اعتماد کی علامت ہے، جو ظاہری شواہد پر نہیں بلکہ خدا کی ربوبیت کے علم پر مبنی ہے۔ المیزان کی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ ’’بے شک میرا رب میرے ساتھ ہے‘‘ کہہ کر موسیٰ (ع) یہ نہیں کہتے کہ وہ فرار کا راستہ جانتے ہیں، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ خدا میرے ساتھ ہے اور وہی میری رہنمائی کرے گا۔ اس بیان میں خوف کی نفی اور یقین کا وعدہ (خوف و رجا) دونوں موجود ہیں کہ خدا راہ کھول دے گا۔

تفسیر کے علماء خدا کی عمومی ہمراہی (جس میں تمام مخلوقات شامل ہیں) اور خصوصی ہمراہی یا ساتھ (جو انبیاء اور اولیاء کے لیے مخصوص ہے) کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ یہ آیت خاص خدائی ہمراہی کی ایک مثال ہے۔ اس قسم کی ہمراہی میں خدا نہ صرف موجود ہے، بلکہ حامی و ناصر، رہنماء اور محافظ بھی ہے۔ مجمع البیان کی تفسیر میں آیا ہے کہ اس آیت میں "ساتھ ” کا مفہوم دیکھ بھال، رہنمائی، مہربانی اور رحمت کے ساتھ ہمراہی ہے، نہ کہ صرف وجودی یا علمی۔

مومنین کیلئے امن اور حوصلہ افزائی کا پیغام
یہ آیت بحران کے لمحات میں تمام انسانوں کے لیے قلبی سکون کا ایک نمونہ ہے۔ کبھی کبھی انسان زندگی میں ایسے حالات پر پہنچ جاتا ہے، جہاں سارے راستے بند نظر آتے ہیں اور کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ ایسے وقت میں سچا ایمان ظاہر ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک موقع پر حضرت موسیٰ کو ان کے ساتھیوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ فرعون کے ہاتھوں گرفتاری کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے اور ہم ہلاک ہو جائیں گے تو حضرت موسیٰ پوری طاقت اور اطمینان کے ساتھ کہتے ہیں: "کبھی نہیں، میرا رب میرے ساتھ ہے۔” یہی جذبہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے، جب آپ نے غار ثور میں حضرت ابوبکر کے شدید خوف کے موقع پر فرمایا: ’’غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘ (التوبہ، 40)۔ یعنی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کتنے دشمن ہیں یا ظاہری راستہ کتنا دشوار اور پیچیدہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

یہ آیت اور اس طرح کی دیگر آیات میں خدا کی مدد کا نظریہ پیش کیا گیا ہے۔
«إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا» (نحل: ۱۲۸)
«إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ» (بقره: ۱۵۳)
«لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا» (توبه: ۴۰)
’’بے شک اللہ اہل تقویٰ کے ساتھ ہے‘‘ (النحل:128)
’’بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘ (البقرۃ:153)
’’غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘ (التوبہ:40)
یہ نظریہ ایک توحیدی فلسفہ کی عکاسی کرتا ہے۔ جو تمام مشکلات کا حل بیرونی اسباب میں نہیں بلکہ خدا سے جڑنے میں منحصر ہے۔

اگر ہم اس آیت کو بحرانوں کے انتظام یا منیجمنٹ کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو اجتماعی خطرے اور اضطراب کے عروج پر، خوف کو تقویت دینے یا حزن میں داخل ہونے کی بجائے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک فیصلہ کن، پرسکون اور پراعتماد جملہ کہا، جس نے پورے ماحول کو بدل کر رکھ دیا۔ علم نفسیات میں، اس ماڈل کو "ٹرسٹ بلڈنگ ماڈل” کہا جاتا ہے۔ عظیم رہنماء، بحران کے لمحات میں، سادہ لیکن مضبوط الفاظ سے اپنے ساتھیوں میں سکون اور اعتماد کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ موسیٰ نے ایک ہی جملے سے خوفزدہ ہجوم کے دلوں میں امید کو زندہ کر دیا۔ ایران کے انقلاب کی تاریخ میں امام خمینی اور آیت اللہ خامنہ ای نے متعدد بحرانوں کے دوران اس عمل کو دہرایا ہے۔

بنی اسرائیل کی پریشانی کا جواب
موسیٰ (ع) کے ساتھیوں کا یہ جملہ "انا لمدرکون” ان کے مادیت پر مبنی نقطہ نظر کی طرف اشارہ کرتا ہے، کیونکہ وہ صرف ظاہری چیزوں کو دیکھ رہے تھے۔ سمندر سامنے اور دشمن کی فوج پیچھے، لیکن موسیٰ نے ظاہری شکل کو نہیں دیکھا بلکہ خدا کی ابدی قدرت کو دیکھا۔ لہٰذا اس آیت کی تفسیر میں دو طرح کے نقطہ نظر (مادی نقطہ نظر اور توحیدی نقطہ نظر) کے درمیان فرق واضح طور پر نمایاں ہے۔ یہ آیت آج ہماری زندگی کا سبق اور نصب العین بن سکتی ہے۔ نقصان اور بے بسی کے لمحات میں سب سے پہلا ردعمل خدا کی پناہ مانگنا ہونا چاہیئے۔ خدا کی موجودگی پر اٹل یقین بظاہر تمام راستے بند ہونے کے باوجود کئی راستے کھول دیتا ہے۔ سچے اور حقیقی لیڈر ایمان کی زبان سے اپنی قوم کو مایوسی کی گہرائیوں سے نکالتے ہیں۔ زندگی میں توحید کا مطلب ہے، پورے دل سے بھروسہ رکھنا کہ کچھ بھی ہو، حل خدا کے ہاتھ میں ہے۔

اس آیت کے بارے میں روایات
بعض روایات بیان کرتی ہیں کہ یہ آیت ان آیات میں سے ایک ہے، جو مومنین میں تقویت اور اعتماد پیدا کرنے کے لیے پڑھی جاتی ہے۔ یہ بھی روایت ہے کہ امام علی علیہ السلام بعض اوقات جنگوں میں انتہائی مشکل صورتحال میں فوج کے حوصلے کو مضبوط کرنے کے لیے اس آیت کا حوالہ دیتے تھے۔ سورۃ الشعراء کی آیت نمبر 62 خدا پر کامل ایمان کا مظہر ہے۔ ایک ایسا عقیدہ جو تاریک ترین لمحوں میں انسان کے راستے میں روشنی کا مینار بن جاتا ہے۔ اس آیت میں حضرت موسیٰ اپنا پورا وجود خدا کے سپرد کرتے ہیں اور طاقت کے ساتھ کہتے ہیں: "خدا میرے ساتھ ہے، وہ راستہ کھول دے گا۔”

یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی کی سب سے بڑی طاقت ہتھیاروں یا دولت یا تعداد میں نہیں ہے، بلکہ خدا سے جڑنے اور اس کی رہنمائی پر بھروسہ کرنے میں ہے۔ اس لمحے میں حضرت موسیٰ کے اعتماد نے بحیرہ احمر کو چیر کر درمیان میں راستہ بنا دیا، لیکن اصل معجزہ یہ نہیں تھا بلکہ اصل معجزہ حضرت موسی (ع) کے دل میں رونما ہوچکا تھا: جہاں انہیں یقین پیدا ہوگیا تھا کہ "خدا کافی ہے” اور «کَلّا اِنَّ مَعِیَ رَبّی سَیَهدین» آج اگر پوری دنیا غاصب صیہونی حکومت اور وقت کے فرعون امریکہ کا ساتھ دے رہی ہے تو رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اپنے کردار و عمل سے بھی اور اپنی انگھوٹی پر کندہ آیت سے بھی پیغام دیا ہے کہ «کَلّا اِنَّ مَعِیَ رَبّی سَیَهدین» (اس مضمون کو مرتب کرنے میں مھدی احمدی صاحب کے آرٹیکل سے استفادہ کیا گیا ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button