
جولانی حکومت کیا گل کھلائے گی؟ کیا شام دوسرا افغانستان بننے جا رہا ہے؟
شیعہ نیوز: ترکی و سعودی عرب کی دوغلی حمایت اور اسرائیلی سازشوں کی شدت نے شام کو ٹکڑوں میں تقسیم کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
شام میں ابومحمد جولانی کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت کو ترکی اور سعودی عرب کی طرف سے محتاط حمایت ملنے کے بعد بین الاقوامی مبصرین اس صورت حال کو ایک نیا افغان ماڈل قرار دے رہے ہیں، جس میں شام کو بھی افغانستان جیسی تقسیم، عدم استحکام اور بیرونی مداخلتوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق، شامی کرد فورسز نے جولانی حکومت کو کسی بھی قسم کا اسلحے حوالہ کرنے سے مکمل انکار کیا ہے، جبکہ ترکی نے تصدیق کی ہے کہ جولانی حکومت نے باقاعدہ طور پر دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے انقرہ سے حمایت طلب کی ہے۔
اگرچہ ترکی نے جولانی حکومت کو عسکری امداد فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، لیکن اس امداد میں اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی فوجی کارروائی شامل نہیں ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ اسرائیل نے حالیہ مہینوں میں صوبہ سویدا میں دروزی اقلیت کی حمایت کی ہے اور شامی علاقوں کی تقسیم کی کوششوں میں تیزی لائی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : زائرین اربعین پر بائی روڈ حکومتی پابندی ناقابلِ قبول ہے، علامہ محمد حسین اکبر
ترکیہ کی جانب سے اب تک کا ردعمل محتاطانہ رہا ہے۔ ترک وزارت دفاع کے ایک ذریعے کے مطابق، انقرہ دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے تربیت، مشاورت اور تکنیکی مدد فراہم کرنے پر کام کررہا ہے، تاہم کھلی عسکری امداد یا ہتھیاروں کی فراہمی سے گریز کیا جارہا ہے۔
ترکی کا یہ احتیاط اس لیے بھی ہے کہ ماضی میں اسرائیل نے شامی سرزمین پر کئی حملے کیے جن میں ترکی کے مفادات بھی متاثر ہوئے۔ مارچ اور اپریل میں اسرائیل نے حمص ایئر بیس اور حماہ کا فوجی ایئرپورٹ بمباری کا نشانہ بنایا، جنہیں ترکی مبینہ طور پر اپنے ہوائی اڈوں یا لاجسٹک اڈوں میں تبدیل کرنے کا خواہاں تھا۔
بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کے مطابق، اگر شام میں جولانی حکومت کو غیرملکی پشت پناہی کے ساتھ مضبوط کیا گیا اور اسرائیلی مداخلتوں کا سلسلہ یونہی جاری رہا، تو شام رفتہ رفتہ افغانستان جیسی خانہ جنگی کا شکار ہوکر ٹکڑوں میں تقسیم ہوسکتا ہے۔
شام کے جنوبی علاقے سویدا میں جولانی کے ماتحت فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، قتل عام اور لوٹ مار کے بعد امریکی کانگریس کی مالیاتی کمیٹی نے اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق نئی شقوں کی منظوری دے دی ہے۔ جولانی کی حمایت یافتہ عبوری حکومت کو امید تھی کہ یہ سخت اقتصادی پابندیاں ختم ہوں گی، تاہم امریکی اقدام نے اس امید پر پانی پھیر دیا۔ اصل قانون میں شام کو 180 دن کے لیے پابندیوں سے جزوی ریلیف دینے کی گنجائش تھی، مگر نئی ترمیم کے تحت یہ مدت بڑھا کر دو سال کردی گئی ہے، جس سے شامی معیشت کی بحالی مزید پیچیدگی کا شکار ہوگئی ہے۔
اسی دوران سعودی عرب نے جولانی حکومت سے گہرے مالی تعلقات قائم کر لیے ہیں، تاہم مبصرین سوال اٹھا رہے ہیں کہ سعودی عرب جولانی سے درحقیقت چاہتا کیا ہے؟ جب کہ خود جولانی کے اقتدار اور طویل مدتی بقاء پر سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں۔
دمشق میں حالیہ دنوں میں سعودی-شام سرمایہ کاری فورم کا انعقاد ہوا، جس میں سعودی عرب کے وزیر سرمایہ کاری خالد الفالح کی قیادت میں 150 سے زائد سرکاری و نجی نمائندے شریک ہوئے۔ اس موقع پر 47 معاہدے اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے جن کی مالیت 5.6 ارب ڈالر ہے۔ اندازہ ہے کہ اگلے 20 برسوں میں شام کی تعمیر نو کے لیے 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہوگی۔
امریکہ کے شام کے لیے خصوصی ایلچی تھامس باراک نے خبردار کیا ہے کہ شام میں لیبیا یا افغانستان جیسے تباہ کن حالات پیدا ہوسکتے ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ سنگین۔
انہوں نے کہا کہ شام میں اقتدار کی کشمکش، غیرملکی مداخلت اور نسلی و فرقہ وارانہ تقسیم اس حوالے سے مزید پیچیدگیاں پیدا کررہی ہیں۔
ترک مصنف یوسف ضیاء جومرت نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ شام کو کمزور اور تقسیم شدہ حالت میں رکھنا صہیونی حکومت کے مفاد میں ہے۔ اسرائیل دروزی اور کرد اقلیتوں کے قریب ہوکر ملک کے اندرونی ڈھانچے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ طویل مدتی اثر و رسوخ قائم رکھا جاسکے۔