جب ضرورت پڑے گي مذاکرات کریں گے، سید عباس عراقچی
شیعہ نیوز: ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ زمینی حقائق اور پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کے تحت آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون میں تبدیلی لائے جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق تہران ٹی وی چینل کے پروگرام”تہران ایران ورلڈ” کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اب ایجنسی جانتی ہے اور جناب ڈائریکٹر جنرل کو معلوم ہونا چاہیے کہ بالکل نئے حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ ہمارے ہاں پارلیمنٹ کا قانون اور زمینی حقائق دونوں بدل چکے ہیں۔ ہماری متعدد ایٹمی تنصیبات پر حملے اور بمباری کی گئی ہے اور انہیں نقصان پہنچا ہے۔ یہ فطری ہے کہ دونوں وجوہات کی بنا پر، میدان میں ہونے والی تبدیلیوں اور پارلیمنٹ کے قانون کی وجہ سے، ایجنسی کے ساتھ تعلقات نئے سرے سے استوار کیے جائيں گے۔
وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کے نئے طریقہ کار کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ہماری پارلیمنٹ نے ایک بہت ہی اہم قانون کی منظوری دی ہے اور درحقیقت
یہ بھی پڑھیں : سلاحِ مقاومت کے خلاف فیصلہ ناقابل قبول ہے، امل تحریک کا شدید ردعمل
ایران اور آئی اے ای کے درمیان تعاون کو ملک کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سپرد کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئی اے ای اے کے ساتھ اب سے کوئی بھی تعاون سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ذریعے اور اس کی منظوری سے کیا جائے گا۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارے جوہری پروگرام کے حوالے سے ایجنسی نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا، خاص طور پر گزشتہ چند مہینوں میں، جب جنگ سے پہلے، ایجنسی کی تیار کردہ رپورٹ کی وجہ سے بورڈ آف گورنرز میں ایک قرارداد منظور کی گئی۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ہم مستقبل قریب میں امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کا ایک نیا دور شروع کرنے جا رہے ہیں، وزیر خارجہ نے کہا کہ اب تک اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ بات چیت ہوئی اور اب بھی بات چیت ہو رہی ہے۔ فریق مقابل کی طرف سے ہم تک پیغامات بھیجے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات جلد ہوں گے یا بدیر اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمارے مفادات کیا تقاضہ کر رہے ہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ مذاکرات دنیا اور خاص طور سے امریکہ کے ساتھ ہمارے رقابت کا میدان ہیں، جہاں بھی ضرورت ہو، ہم ملک و قوم کے مفادات کے تحفظ کے لیے لڑیں گے۔ جہاں ضروری ہوا، ہم مذاکرات کریں ہیں۔ جہاں ضرورت ہوئی، ہم سفارت کاری کا استعمال کریں گے اور جہاں ضروری ہوا، ہم اپنی دفاعی اور فوجی طاقت استعمال کریں گے۔