مضامین

سلفیت نئے مرکز اور لیڈرشپ کی تلاش میں

تحریر: ملک قیصر عباس

 

 اپنے دور کے بڑے استعمار برطانیہ نے اپنی مسلم مقبوضات کے اندر بہت سے انحرافی گروہوں کو تشکیل دیا۔ ان میں سے ایک گروہ ہندوستان کے اندر قادیانیت کے نام سے بنایا، ایران کے اندر بہائیت اور حجاز میں (سعودی عرب) وہابیت کو بنایا۔ یہ تینوں انحرافی گروہ آج مسلم دنیا کے اندر فساد کی بنیادی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ تیل کی دریافت سے پہلے سلفی تفکر کا ہمارے ہاں کوئی وجود نہیں تھا۔ سعودی عرب تنہا ہو رہا ہے۔ اس کے ہاتھوں سے یہ تمام سلفی دہشت گرد گروہ تشکیل کرائے گئے ہیں۔ سعودی عرب نے ساری دنیا میں مراکز بنانے کے لئے کثیر سرمایہ لگایا ہے اور مسلمانوں کے خلاف جہاد کو شروع کیا ہے۔ پاکستان، عراق، افغانستان، شام اور یمن میں اس کی سرمایہ کاری کے نتائج آج واضح اور آشکار ہیں۔ اب ایسا لگ رہا ہے جیسے اس سعودی خاندان کی ذمہ داری کا اختتام ہونے والا ہے۔

 

سلفی گروہ کا مذہبی دھڑا سعودی حکومت سے ناراض ہے اور ایک نئے مرکز کی تلاش میں ہے کہ جہاں سے وہ آزادی سے کام کرسکیں۔ سلفی مذہبی گروہ سلفیت کی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں، جس کے لئے شاہی خاندان کا ختم ہونا لازمی ہے۔ نیا مرکز کون سا ہوسکتا ہے جو انہیں تحفظ بھی فراہم کرسکے، ہر طرح کی امداد اور تربیت کی فراہمی کرسکے، وہ ہے اردن۔ دور جدید کی شامی خانہ جنگی کے بعد اب یہ سلفی جہادی گروہ اردن میں جمع ہو رہے ہیں۔ اردن کا شاہی خاندان عثمانی دور حکومت میں مکہ کا متولی اور حاکم تھا۔ موجودہ حکمران کی ماں اور بیوی بھی غربی ہیں اور یہودی خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ عراق، افغانستان اور شامی معاملات میں اس کی کوئی خبر میڈیا میں نہیں آتی۔ موجودہ شاہ کی فوجی تربیت برطانیہ میں ہوئی ہے اور یہ فوجی مشقوں میں خود بھی حصہ لیتا ہے۔ تکفیری سلفی علماء کو دیکھیں تو ان کے چہرے کریہہ اور بدصورت ہیں۔ ان کے مقابلے میں موجودہ اردن کے شاہ کو دیکھا جائے تو وہ شکل و صورت کے لحاظ سے جاذب شخصیت کا حامل ہے جو عوام الناس کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ وہ ہاشمی ہونے کا دعویدار بھی ہے۔

 

افغانستان میں امارت اسلامی کی امید طالبان دور حکومت میں ایجاد کی گئی تھی، جو صرف چند ماہ ہی چل پائی تھی۔ پاکستان اور افغانستان کو ملا کر ایک امارت قائم کرنے کا خواب بھی ہوا ہوگیا ہے۔ یہ سلفی ارمان ہی ہے۔ سلفی گروہ کی ناکامی کی وجوہات میں سے آئیڈیالوجک وجوہات کے علاوہ ایک وجہ ایک کیرسمیٹک لیڈرشپ کا نہ ہونا بھی ہے۔ جسے اردنی شاہ اچھی طرح پر کرتا نظر آتا ہے۔ ان کے مقابلے میں تشیع کی لیڈرشپ کو دیکھیں تو وہ اپنے اعمال و کردار، تقویٰ، جرات، بیداری اور چہرے کی نورانیت اور معنویت سے معمور ہیں اور ایک زبردست قوت جاذبہ کی حامل ہیں۔ تمام تر ظلم و تشدد، جبر کے باوجود تشیع نے ولایت کے نظام کو رائج کرنے کا اپنا ارمان حاصل کر لیا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اور زیادہ قوی اور با اثر ہو رہا ہے۔ دشمنوں کی تمام تر خباثتوں، سازشوں، جنگ و جدل کے باوجود نظام ولایت کو نہ صرف بچایا ہے بلکہ اسے ساری دنیا میں ایک مضبوط، بااثر و باعزت اسلامی نظام کے عنوان سے بھی منوایا ہے، جب کہ ان کے مقابلے میں دوسرے گروہ اپنے وقت کی حکومتوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہے ہیں اور خلافت کے نظام کو قائم نہیں کرسکے۔ حکومتوں کے ساتھ ہر طرح کا تعاون، حکمرانوں کی عیاشیوں پر خاموشی بلکہ ان کے غلط کاموں کے لئے ہر طرح کے فتوے گھڑنے کے باوجود وہ حکومت حاصل نہیں کرسکے ہیں۔

 

سعودی عرب، قطر، اردن اور دوسرے ممالک نے افغانستان میں امارت اسلامی قائم کرنے کے لئے ہر طرح کی مدد اور تعاون کیا ہے مگر اسے اپنے ہاں رائج کرنے کے لئے کسی صورت آمادہ نہیں رہے۔ پیسہ کی ریل پیل اور ہر طرح کی سہولیات کی موجودگی کے باوجود سلفیت خلافت کو رائج نہیں کرسکی۔ افغانستان میں قائم امارت اسلامی بھی دھڑام سے گر گئی اور پورے خطے کو تباہی کی لپیٹ میں لے ڈوبی۔ ساری دنیا میں امریکی و یورپی حمایت سے سلفی مدارس و اداروں کے عظیم جال کے بچھانے سے بڑے بڑے حمایتی گروہ وجود میں لائے گئے ہیں۔ جو اب بذات خود ایک مافیا کی صورت اختیار کرچکے ہیں اور اپنے مرکز کی پالیسیوں پہ اثر انداز ہو رہے ہیں۔ بہت سے ملکوں میں ان کی سیاسی اور حربی صلاحیت ان ملکوں کی حکومتوں پہ اثر انداز ہو رہی ہے، چونکہ ان کے سامنے کوئی واضح ہدف نہیں ہے اس لئے یہ مایوسی کے عالم میں تشدد کا سہارا لے کر اپنے نظریات دوسروں پہ تھونپتے ہیں۔

 

اب یہ سلفی گروہ بہت سے ممالک میں موجود ہیں۔ اس سلفی گروہ کی مایوسی اپنی لیڈرشپ سے بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ اتنی زیادہ قتل و غارت کے باوجود یہ اپنے ہدف کو حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مذہبی گروہ کے سعودی شاہی خاندان کے ساتھ اختلافات بڑھ رہے ہیں۔ خطہ میں ان کا اصل مقابلہ تشیع کے ساتھ ہے، جس کا اثرونفوذ بہت بڑھتا جا رہا ہے اور قتل و غارت اور تشدد انہیں کوئی فائدہ نہیں دے رہا ہے۔ یہ گروہ ایک طرف تو تشیع کا خاتمہ چاہتا ہے اور دوسری طرف مکہ و مدینہ پر بھی بغیر کسی رکاوٹ اور پابندی کے سلفی شریعت کا نفاذ چاہتا ہے۔ سلفی گروہ کے نظریاتی افراد سعودی شاہی خاندان کے ساتھ اختلافات کے اس مقام پہ پہنچ رہے ہیں جہاں سے منزلوں کے راستے جدا جدا ہوتے ہیں۔ سعودی شاہی خاندان نے اپن
ی حکومت کو دوام بخشنے کے لئے تشیع کے خلاف ساری دنیا میں جہاد شروع کرایا تھا جو اب بھی جاری ہے۔ شام کے معاملے میں سعودی عرب کی بھرپور عیاں حمایت کے باوجود سلفی دہشت گردوں کو شکست ملی ہے جو کہ سلفی مذہبی گروہوں اور سعودی خاندان کے لئے مزید مسائل و مشکلات پیدا کرنے والی ہے۔ سعودی عرب علاقے میں اپنے حامیوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ تشیع کے خلاف شدید اقدامات کریں۔

 

ملائشیا، انڈونیشا، الجزائر، پاکستان میں پچھلے مہینوں میں ہونے والے اقدامات کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ سلفی مذہبی شدت پسند گروہوں کو مطمئن کرنے اور ان کے گرتے ہوئے مورال کو بڑھانے کے لئے یمن میں حوثیوں کے خلاف سرحدی جھڑپیں کی گئیں اور اس کے بعد بحرین میں سعودی فوجی دستے داخل کیے گئے، تاکہ ان کا مورال اپ رہے۔ مگر حالیہ شام کی شکست نے سعودی خاندان کے مزید حکومت کرنے کے امکانات کم کر دیئے ہیں۔ اب یہ ذمہ داری کسی اور کو سونپی جانے والی ہے۔ جو ایک طرف تو لیڈرشپ کے حوالے سے قابل کشش شخصیت کا حامل ہو اور دوسری طرف تشیع کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو بھی نہایت احسن طریقے سے روک سکے۔

 

اس سلسلے میں سناریو کچھ یوں بنتا نظر آ رہا ہے کہ اردن کا بادشاہ عبداللہ دوئم ایک طرف خود کو پیغمبر کے خاندان سے ہونے کا دعویدار ہے اور دوسری طرف اس کی شخصیت آج کی ماڈرن دنیا کے کے لئے ایک روشن فکر اور جدید لیڈر ہونے کے معیار پہ پوری اتر رہی ہے۔ اگر یہ لیڈرشپ اردن کے پاس چلی جاتی ہے تو پھر نہ صرف سلفی گروہ بلکہ دوسرے فقہ سے تعلق رکھنے والے اہل سنت کو بھی اپنی طرف مائل کر لے گی۔ اسی صورت میں پہلے قدم کے طور پہ ہمسایہ ممالک کی ایک کنفڈریشن بن سکتی ہے اور دوسرا اگر فلسطین کا کچھ علاقہ بھی ان کو دے دیا جائے تو پھر اردنی بادشاہ نہ صرف ایک ہیرو بلکہ نجات دہندہ ہونے کے ان کے معیار پہ پورا اتر جائے گا۔ اس طرح اسرائیل کے باقی رہنے کی گارنٹی مسلمانوں کے اپنے ہاتھوں سے مل جائے گی۔ اس صورت میں اگر یہ نجات دہندہ مکہ و مدینہ کی آزادی کا نعرہ لگا کے سعودی حکومت کا خاتمہ کرنے کے لئے ایک لشکر مکہ و مدینہ بھیج دے تو بھی عوام کی طرف سے خاموشی رہے گی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ممکن ہے کہ ایک لشکر تشیع کا اثرونفوذ ختم کرنے کے لئے عراق کے راستے سے بھیج دے تو بھی یہ اب ممکن لگ رہا ہے اور پھر؟ ……. صبح قریب ہے!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button