مضامین

عمران خان صاحب ۔۔۔۔۔۔ جاؤ اور ڈوب مرو

شیعہ نیوز (کراچی) حکومت طالبان کو منانے کیلئے اتنی بےچین ہو رہی ہے کہ یہ اب مولانا سمیع الحق اور منور حسن جیسے لوگوں کی مدد لینا چاہ رہی ہے جن کی عسکریت پسندوں کے ساتھ ہمدردی سے سب واقف ہیں۔  یہ دونوں طالبان کی طرف سے تو بول سکتے ہیں، لیکن امن کی باتیں کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ کوئی کیسے جماعت کے سربراہ کا حکیم اللہ محسود کو ‘شہید’ قرار دینا بھول سکتا ہے؟ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ طالبان مذاکرات کا ایک ضامن ان کو بنانا چاہتے تھے۔ سمیع الحق کی ساکھ ان سے کم داغدار نہیں ہے۔  ملک کے ایک سب سے بڑے اور کٹر مذہبی مدرسے کے سربراہ کے طور پر جس کی اکثر جہادیوں کی یونیورسٹی کے طور پر توضیح کی جاتی ہے وہ بڑے دھڑلے سے تشدد پسندوں کے ساتھ اپنے نزدیکی تعلقات کا اعلان کرتے ہیں۔

اور صرف وفاقی حکومت ہی نہیں ہے جس پر یہ الزام ہے بلکہ عمران خان بھی اپنے زہریلے بیانات کی وجہ سے اس شرمناک شکست خوردگی کے لئے ذمہ دار ہیں۔ اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ وہ اس جھگڑے میں کس طرف کھڑے ہیں۔  درحقیقت عمران خان طالبان کے مقاصد کے سب سے بڑے وکیل ہیں۔  خیبر پختونخوا میں روز بروز بڑھتے ہوئے دہشت گردوں کے حملوں کا جواز ہی صوبائی حکومت کی طالبان کی حمایت ہے۔ وزراء دہشت گردی کے ہر حملے کے بعد طالبان کے دفاع میں بیان دیتے ہیں۔ اس رویہ کی وجہ سے صوبہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوصلے پست ہوئے ہیں۔ پی ایم ایل ن اور پی ٹی آئی کے درمیان پنجاب میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی زبردست جنگ ہورہی ہے۔

اور اب جب موت کا بھیانک ناچ جاری ہے، ایک نئی کل پارٹی کانفرنس بلانے کی باتیں ہورہی ہیں۔  یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ کل پارٹی کانفرنسوں کا مقصد نازک پالیسی مسائل کے بارے میں فیصلہ کرنے کی ذمہ داریوں سے بچنا ہوتا ہے۔ اس بات کو کئی مہینے ہوچکے ہیں جب تمام پارٹیوں کے لیڈروں نے مل کر حکومت کو جارحیت پسندوں سے مذاکرات کرنے کا مینڈیٹ دیا تھا۔ لیکن جیسا کہ امید تھی کچھ بھی نہیں ہوا۔  اور اس بار بھی کچھ ہونے کی امید نہیں ہے سوائے وقت ضایع ہونے کے۔ سات مہینے کی بے عملی نے جارحیت پسندوں کو نہ صرف کے پی میں بڑھ چڑھ کر دہشت گرد حملے کرنے کا موقع فراہم کیا بلکہ کراچی کو بھی ایک نئے میدان جنگ میں تبدیل کردیا اور اب پنجاب بھی اس جنگ کی گرمی کو راولپنڈی میں حالیہ دہشت گرد حملے کی وجہ سے محسوس کرنے لگا ہے- شکست خوردہ ذہنیت کے خطرناک نتائج ایسے ہی ہوتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button