پاکستانی شیعہ خبریں

کالعدم طالبان سے مذاکرات پر سُنی تحریک نے دس سوالات اُٹھا دیئے

شیعہ نیوز (کراچی) پاکستان سُنی تحریک نے کالعدم طالبان سے حکومتی مذاکرات پر دس سوالات اُٹھا دِیئے۔ سربراہ پاکستان سُنی تحریک محمد ثروت اعجاز قادری کی زیر صدارت مرکز اہلسنت پر مرکزی رہنماؤں اور اراکین رابطہ کمیٹی کے اہم ترین ہنگامی اجلاس میں طالبان سے حکومتی مذاکرات اور فریقین کے نمائندگان کے اعلان کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ پاکستان سُنی تحریک محمد ثروت اعجاز قادری نے کہا کہ کالعدم  طالبان سے حکومتی مذاکرات پاکستان کے  آئین، شریعت اور شہداء کے لواحقین سے سنگین مذاق ہے۔ مذاکراتی عمل پر قوم شدید تشویش کا شکار ہے، شہداء کے لواحقین سمیت پوری قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔ وطن عزیز ایک مرتبہ پھر مذاکرات کے نام پر ملک دشمن قوتوں کو تقویت دینے کا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ قوم پچاس ہزار سے زائد شہداء کے خون پر کسی صورت سودے بازی قبول نہیں کرے گی۔
کالعدم طالبان کا ریموٹ کنٹرول پاکستان سے باہر ہے اس لیے مذاکرات سے اُمیدیں وابستہ کرنا حماقت ہے۔ مذاکراتی ڈرامے سے دہشتگردوں کو مزید منظم ہونے کا موقع ملے گا۔ پاکستان سنی تحریک کی جانب سے جاری کردہ دس نکاتی سوالنامے میں کہا گیا کہ پاکستان کا آئین ریاست کے باغیوں سے مذاکرات کو رد کرتا ہے، دہشت گردوں سے مذاکرات کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ اگر دہشتگرد اسی طرح مذاکرات کے نام پر اپنے مطالبات منواتے رہے تو آئین، قانون اور عدلیہ کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ کیا طالبان سے مذاکرات کے لئے کوئی ضمانت موجود ہے؟ اگر ہے تو وہ کون ہیں ؟ اگر طالبان کسی معاہدے کو توڑیں گے تو کیا طالبان کی نامزد کمیٹی اس کی ذمہ داری قبول کرے گی؟ اگر حکومت نے ہزاروں بیگناہوں کے اعلانیہ قاتلوں سے مذاکرات ہی کرنے ہیں تو دوسرے مجرموں کو جیلوں میں قید کرنے کا کیا جواز ہے؟ اہلسنت سمیت دیگر مکاتب فکر کی مذہبی آزادی پر قدغن لگانا طالبان کا ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے۔ کیا مذاکرات کے پردے میں طالبان کے نظام کو قانونی شکل میں رائج کیا جا رہا ہے؟ مذاکراتی عمل کیلئے وطن عزیز میں دہشتگردی کے سب سے بڑے شکار مکاتب فکر اور جماعتوں کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا؟ دہشتگردوں سے مذاکرات کا دم بھرنے والے اب تک شہداء کے وارثین کی تسلی اور تشفی کیلئے کیوں نہیں گئے ؟ مذاکراتی عمل کیلئے صرف دہشتگردوں اور اس کے سرپرستوں کی رائے کیوں اہم سمجھا گیا؟ نام نہاد مذاکراتی عمل کا دورانیہ کیا ہے ؟ اگر نہیں ہے تو کیوں نہیں؟ کیا مذاکرات کے نام پر دہشتگردوں کو دی جانیوالی تمام رعایتوں کی تفصیلات قوم کے سامنے واضح نہیں ہونی چاہئیں؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button