طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شمولیت سے فوج کا انکار
شیعہ نیوز (راولپنڈی) اطلاعات کے مطابق فوج کی اعلٰی سطح کی قیادت نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ مذاکرات کا انعقاد حکومت کی ذمہ داری ہے، جمعہ کو مذاکرات میں اپنی شرکت کے حوالے سے کی جانے والی باتوں کو مسترد کردیا۔جی ایچ کیو راولپنڈی میں فوج کے ماہانہ پروگرام کے تحت 170ویں کور کمانڈر کانفرنس میں جائزہ لیا گیا کہ حکومت عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے اگلے مرحلے میں داخل ہونے کے لیے تیار ہے، جس میں وہ اگلے ہفتے طالبان کے ساتھ براہِ راست بات چیت کا راستہ کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
میڈیا میں یہ قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ حکومت کالعدم ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کرنے والی ٹیم میں فوج کی نمائندگی چاہتی ہے۔کور کمانڈرز کے اجلاس میں شریک ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کے دوران کسی نے ایسا کوئی حوالے نہیں دیا کہ حکومت اپنی ٹیم میں فوج کا ایک نمائندہ شامل کرنا چاہتی ہے، اس لیے کہ ایسی کوئی تجویز سیاسی قیادت کی جانب سے فوجی کمان کے سامنے پیش نہیں کی گئی تھی۔لیکن جرنیلوں کی جانب سے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے حکومت کے دوسرے مرحلے کی منصوبہ بندی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا کہ مذاکرات حکومت کی ایک حکمت عملی تھی، جسے آگے بڑھانا حکومت ہی کی ذمہ داری ہے، فوج کو اس سلسلے میں کسی بھی قسم کے کردار میں دلچسپی نہیں ہے۔جب کے کور کمانڈروں نے اس بات پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا کہ سرپرست تنظیم ٹی ٹی پی کی جانب سے ایک ماہ کے لیے تشدد معطل کردینے کے اعلان کے باوجود مختلف عسکریت پسند گروپس کی طرف سے حملے جاری ہیں۔
فوج مذاکرات کے حوالے سے زور دے رہی ہے کہ یہ حکومتی اسٹریٹیجی ہے، انہیں یقین ہے کہ اس بیان سے مذاکراتی عمل سے فوج کی مایوسی ظاہر ہوتی ہے۔جبکہ حکومتی دلیل ہےکہ فوج کاپس منظر میں ایک کردار ہے، یہ تاثر دینے کی ایک کوشش ہے کہ سیاسی قیادت اور فوجی کمان ایک ہی پیج پر ہیں۔ذرائع کے مطابق کور کمانڈرز نے داخلی سلامتی کی نئی قومی پالیسی کے نفاذ میں فوج کے کردار کے امکانات کا جائزہ لیا۔