مضامین

کیا شہداء کا لہو بھی ہمیں بیدار کرنے کے لئے کافی نہیں؟؟

تحریر: بے باک اشتر

 

مجھے آج اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ کیا شہدائے ملت کا لہو بھی ہمیں جھنجھوڑ نہیں سکتا اور کیا شہداء کا لہو بھی ہمیں بیدار کرنے کے لئے کافی نہیں؟ یا ہماری ہی خامیاں اتنی ہیں کہ ہم نے شہداء کے پاک لہو کو فراموش تو نہیں کر دیا؟ خیر اس بات کا احساس مجھے اس وقت کچھ زیاد ہ ہوا کہ جب میں اپنے ایک دوست کے شہید ہونے کے بعد اس کے تشیع جنازہ میں شرکت کے لئے پہنچا، کیونکہ ماضی میں زمانہ طالب علمی میں تو میں ہمیشہ اس طرح کے اجتماعات اور شہدائے ملت کے جنازوں میں صف اول میں موجود رہتا ہے اور فعال کردار ادا کیا کرتا تھا لیکن موجودہ زمانے میں معاشی کشمکش اور کاروبار زندگی میں کچھ اس طرح الجھ کر رہ گیا ہوں کہ ا ب پہلے جیسی بات نہیں اور آج طویل مدت کے بعد اپنے ایک عزیز دوست کے تشیع جنازے میں شریک ہوا ہوں کہ جسے شہر کراچی میں دہشت گردوں نے بے دردی سے شہید کر دیا تھا۔

میں اپنے دوست کے جنازے میں کھڑا اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لے رہا تھا کہ جہاں پر چند نوجوانوں اور ایک یا پھر دو علمائے کرام کے علاوہ کوئی خاص شرکت دیکھنے کو نہ تھی، میرا دل اپنے دوست کی شہادت کے اس غم کو بھول گیا اور مجھے اپنے آپ پر اور ملت پر رہ رہ کر افسوس ہو رہا تھا کہ آخر ایسی کیا وجوہات ہیں کہ شہر کراچی کہ جہاں شیعہ آبادی لاکھوں میں موجود ہے لیکن افسوس ناک بات ہے کہ ایک شہید کے جنازے میں صرف چند سو افراد اور شہید کے دوست احباب کے علاوہ کوئی موجود نہیں ہے۔ میرے دل و دماغ پر اب صرف ایک ہی بات طاری ہو چکی تھی شاید میں اپنے دوست کے غم کو کہیں دور چھوڑ چکا تھا اور اپنی ملت کی اس حالت پر کہ جسے میں حالت زار کہوں یاپھر بے حسی کہوں، مجھے تو یہ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، بہر حال اس شہید نوجوان کے جنازے میں چند سو افراد موجود تھے اور دو علماء بھی موجود تھے کہ جنہوں نے شہید کی نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد اپنی زندگی کی دیگر مصروفیات کی طرف توجہ مبذول کرلی۔

میر ے ذہن کے دریچوں میں ایک سوال ابھر رہا ہے کہ کیا کراچی جیسے شہر میں کہ جہاں لاکھوں شیعیان حیدر کرار (ع) زندگی گذار رہے ہوں وہاں شہید کے تشیع جنازے کی حرمت ایسی ہونی چاہئیے؟ کراچی جیسے شہر میں کہ جہاں سینکڑوں کی تعداد میں دینی مدارس موجود ہیں اور ان مدارس میں ہزاروں کی تعداد میں طلاب بھی موجود ہیں لیکن پھر بھی ان سب کی موجودگی میں کیا ہمارے شہداء کے جنازوں کی شان ایسی ہونی چاہئیے؟ کیا ہمیں یہ زیب دیتا ہے کہ ہمارے اس پڑھے لکھے معاشرے میں کہ جہاں سینکڑوں علمائے کرام موجود ہوں، جہاں ہزاروں کی تعداد میں خطبائے عظام اور ذاکراین کرام موجود ہوں وہاں شہداء کے جنازوں کی حرمت کا حال یہ ہو؟

ایک ایسے معاشرے میں کہ جہاں مذہب و ملت کے نام پر درجنوں بڑی بڑی تنظیمیں اور اداروں کی موجودگی کے باوجود ہمارے شہداء کے جنازوں کی حرمت کا حال ایسا ہونا خود ان تنظیموں اور اداروں پر سوالیہ نشان ہے، ایک ایسے معاشرے میں کہ جہاں ہزاروں کی تعداد میں ماتمی انجمنیں موجود ہوں لیکن شہید کے جنازے کی حرمت کا عالم یہ ہو کہ چند سو جوان اور دو علماء کا موجود ہونا، واقعاً یہ انتہائی عجیب و غریب گزرا ہے مجھ پر کہ جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ میں آج اپنے اس شہید دوست کے جنازے میں شریک ہوا اور اس کی تدفین کے بعد گھر پہنچ گیا لیکن میرا دل بے چین تھا، میرا دماغ شاید اپنی جگہ پر موجود نہیں تھا، مجھے رہ رہ کر فکر ہو رہی تھی اس عظیم ملت جعفریہ کی کہ جس نے ہمیشہ سر زمین پاکستان پر انوکھی تاریخ رقم کی ہے، لیکن آج ایک شہید کے جنازے کو دیکھنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں شاید اس قدر محو ہو چکے ہیں کہ اب ہمیں اجتماعی معاملات کی پرواہ ہی نہیں رہی یا شاید ہم نے خود کو ملت سے جدا تصور کرنا شروع کر لیا ہے۔

میرے دل و دماغ میں ایک ہی بات گونج رہی ہے کہ کیا شہداء کا لہو بھی ہمیں جھنجھوڑنے کے لئے کافی نہیں ہے کیونکہ میں نے زمانہ طالب علمی میں درجنوں مرتبہ ایسی روایات سماعت کی ہیں کہ جن میں شہداء کے لہو کے مقدس ہونے اور شہداء کے خون کی تاثیر اور برکات کے بارے مین بتایا گیا تھا لیکن آج دور حاضر میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم بے حس ہو چکے ہیں ہمیں شہداء کے لہو بھی بیدار نہیں کر پا رہا، ابھی بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بھی سنہ 61ء ہجری کی کربلا میں امام حسین (ع) کا ساتھ دینے کی بجائے اپنی زندگی کی آسائشوں کو ترجیح دے رہے ہوں اور وقت کا امام (عج) تنہا نہ رہ جائے، ہمیں سوچنا ہوگا اور فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کربلا میں کس طرف ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ تاریخ ایک مرتبہ پھر ہمیں دور جدید کا کوفی شمار کرے اور پھر پچھتاوے کے دامن میں کچھ نہ رہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا، میں نے جو کچھ بھی اپنے شہید دوست کے جنازے میں محسوس کیا اسے بیان کر ڈالا اور ملت کے ایک فرد کی حیثیت سے پوری ملت سے سوال کرتا ہوں کہ کیا شہداء کا لہو ہمیں جھنجھوڑنے کے لئے کافی نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button