عراق میں دہشتگردی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟
تحریر: سجاد حسین آہیر
(قم المقدسہ)
عراق گذشتہ چند ماہ سے امنیت کے اعتبار سے ایک بڑے بحران کا شکار ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق عراق میں پچھلے سال 8،868 افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے، عراق کی سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے صوبہ الانبار کے دو شہروں رمادی اور فلوجہ میں دولت اسلامی عراق و شام (داعش) نامی دہشت گرد گروہ سے برسرپیکار ہیں۔ الانبار پر قبضہ میں ناکامی کے بعد دہشت گردوں نے ملک کے اندر کشیدگی کو ہوا دینے، سیاسی صورتحال کو متزلزل کرنے اور نوری المالکی کی حکومت کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو نوری المالکی سے متنفر کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں، تاکہ دوبارہ اس کی حکومت نہ بن سکے، کیونکہ مقتدیٰ الصدر نے انتخابات سے کنارہ گیری اور اپنے تمام سیاسی مراکز کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ عمل نوری المالکی کی جماعت کو مضبوط کرنے کا باعث بنے گا، کیونکہ اہل تشیع کے نزدیک وزارت عظمٰی کے لیے مناسب ترین فرد نوری المالکی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عراق دہشت گردی کی بھینٹ کیوں چڑھ رہا ہے؟ اور اس دہشت گردی کی پشت پر کون سے عوامل کار فرما ہیں۔؟ دراصل دہشت گرد گروہوں پر شامی فوج کی فتح نے بین الاقوامی سیاست کا رخ موڑ دیا ہے اور شام میں سرگرم دہشت گردوں کی حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے۔ شام تین سالوں میں ہر طرح کی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ چاہے وہ امریکہ کا فوجی حملہ ہو یا دہشت گردوں کے ہاتھوں کیمیائی ہتھیار دینے کا معاملہ ہو یا جینوا کی دوسری کانفرنس، ان سب میں امریکہ، سعودی عرب، اسرائیل، ترکی، قطر اور اردن کی سرتوڑ کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔
دوسری طرف یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آل سعود کی سرنوشت القاعدہ سے مربوط ہے۔ قطر اور سعودی عرب گذشتہ تین سالوں سے شام میں القاعدہ سے مربوط دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور دونوں کی دلی خواہش ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کو ختم کیا جائے۔ قطر اور سعودی عرب القاعدہ کے دہشت گردوں کی حمایت کی بدولت دہشت گردی کی جنگ کے دامن میں وسعت آئی ہے، جو شام کی سرحد کو عبور کرکے عراق میں داخل ہوچکی ہے۔ ان دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ عراقی حکومت بشار الاسد کی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے شیعہ افراد کو دہشت گردوں کے خلاف مسلسل بھیج رہی ہے۔ اسی وجہ سے ان کی کوشش ہے کہ نوری المالکی کو ملک کے داخلی مسائل میں الجھا دیا جائے اور اس ملک کے اندر دہشت گردی کی فضا پیدا کر دی جائے، تاکہ عراق اور شام کے درمیان مضبوط رابطے کو منقطع کیا جاسکے۔
اسی طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب اور قطر لبنان میں ناامنی پھیلانے کی سرتوڑ کوشش میں مصروف ہیں۔ تاکہ حزب اللہ کو لبنان کے اندرونی حالات میں پھنسا دیا جائے اور حزب اللہ کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ شام میں مداخلت نہ کرے، یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں ممالک دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں اور اور اپنے مفادات کی خاطر علاقے کے باقی ممالک کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک رہے ہیں۔ اب عراقی عوام کے مفادات ان ممالک کے مفادات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، کیونکہ اس سے عراق کی سیاسی اور معاشرتی صورتحال بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوری المالکی کی حکومت ان دو ممالک کو عراق کی صورتحال کا اصلی موجب قرار دیتے ہوئے اپنے ملک میں مداخلت شمار کرتی ہے اور عراقی حکومت اعلانیہ کہنے پر مجبور ہوئی ہے کہ یہ دو ممالک عراق کے اندرونی حالات کو خراب کرنے میں براہ راست ملوث ہیں اور عراق کی حکومت کے استحکام میں ایک رکاوٹ ہیں۔
عراق کے وزیراعظم نوری المالکی نے کہا ہے کہ میں سعودی عرب اور قطر کو الانبار میں دہشت گردی کی پشت پناہی اور تشویق کرنے والا سمجھتا ہوں، یہ ممالک سیاسی، مالی، میڈیا اور اسلحہ کے حوالے سے دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں، یہ دونوں ممالک دہشت گردوں کو عراق کے خلاف جنگ پر اکسانے میں ملوث ہیں اور القاعدہ کی انسانی طاقت کو پناہ دینے والے ہیں۔ اب سوال یہ کہ عراق کے تمام صوبوں میں سے صرف الانبار کا انتخاب ہی دہشت گردوں نے کیوں کیا؟ اور سعودی عرب کی نگاہیں الانبار پر ہی کیوں ہیں؟ شام کے بارے میں بین الاقوامی پالیسی میں تبدیلی سعودی عرب کی سیاست پر ایک مہلک ضرب تھی، سعودی عرب خود کو خطرات میں گھرا دیکھ رہا تھا، جب امریکہ نے فوجی حملہ کرنے سے انکار کر دیا اور شام نے دہشت گردوں کو سب محاذوں پر شکست فاش دی۔ ادھر سے اردن اور ترکی کی پالیسی میں بھی تبدیلی آگئی، تو شام کے محاذ پر سعودی عرب تنہا رہ گیا، بالخصوص جب ترکی اور اردن نے اپنی سرحدیں اسلحہ وغیرہ کی ترسیل کے لیے بند کر دیں، اور عراق نے بھی کئی بار اعلان کیا کہ وہ دہشت گردی کے لیے اپنی زمین استعمال نہیں ہونے دے گا۔ ایسے حالات میں سعودی عرب کے لیے دہشت گردوں کی مدد کی خاطر اسلحہ اور افرادی قوت کو شام بھیجنا مشکل ہوگیا۔
ادھر سے ترکی اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات اتنے شدید ہیں کہ سعودی حکومت ترکی کو امداد رسانی کے لیے سرحدیں کھولنے پر راضی نہیں کرسکتی۔ اس کے علاوہ سعودی عرب نے اردن سے امداد کے جھوٹے وعدے کئے اور عمل درآمد نہ کیا، لہذا اب وہ بھی مزید تعاون کے لیے تیار نہیں۔ سعودی عرب کے لیے ایک آخری راہ حل عراق کا صوبہ الانبار ہے کہ اس راستے سے شام میں دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرے اور اس ہدف کے حصول کے لیے اس نے بڑی کوششیں کیں، یہاں تک کہ
عراق کے سیاستدانوں تک نفوذ حاصل کیا ہے، جن میں سے سرکردہ سیاستدان (احمد العلوانی) ہے۔ بعض ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کچھ عراقی سیاستدانوں کے قطر اور سعودی عرب جیسے ممالک سے بہت قریبی روابط ہیں اور ان سیاستدانوں کو بھاری مقدار میں امداد دی گئی ہے اور پارلیمنٹ کے بعض افراد نے استعفٰی دینے سے پہلے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا ہے۔
صوبہ الانبار کا انتخاب اس کی جغرافیائی اور آبادی کی صورتحال کے ساتھ ساتھ سابقہ ریکارڈ کی بنا پر کیا گیا ہے، کیونکہ جغرافیائی اعتبار سے صوبہ الانبار عراق کے غرب میں واقع ہے، اس کا شمار عراق کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے، اس کی وسعت 500 مربع کلو میٹر اور 2013ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 1،90،000 ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے یہ صوبہ شمال کی طرف سے دو صوبوں (صلاح الدین اور نینوا) کے ساتھ جبکہ شمال مغرب کی طرف سے شام کے ساتھ متصل ہے، مغرب کی طرف سے اردن، مشرق کی طرف سے بغداد، جنوب کی طرف سے سعودی عرب اور جنوب مشرق کی طرف سے کربلا اور نجف کا ہمسایہ ہے۔ اس صوبہ میں کل 8 بڑے شہر ہیں، جن میں سے مشہور الرمادی، فلوجہ اور الرباطہ ہیں۔ سابقہ ریکارڈ کے حوالے سے 2003ء میں امریکہ کے حملے کے وقت یہ مقاومت کا گڑھ تھا، امریکہ کو فلوجہ میں سنگین نقصان اٹھانا پڑا اور امریکی افواج فلوجہ میں داخل ہونے میں کامیاب نہ ہوسکیں اور جب امریکہ نے دوسرا حملہ کیا تو ان علاقوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا اور اس بات کا امریکی فوج نے خود بھی اعتراف کیا تھا۔
امریکی افواج کے انخلا کے بعد الانبار، القاعدہ کا ایک قلعہ شمار ہوتا تھا۔ امریکہ کے انخلا اور ایک عوامی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھی یہ علاقہ القاعدہ کے تسلط میں تھا اور سلفی و وہابی نظریات کے حامل گروہ دہشت گردی پر مبنی سرگرمیاں انجام دے رہے تھے اور انہیں سعودی عرب کی پشت پناہی حاصل تھی، اس بات کو بہانا بنایا ہوا تھا کہ عراق کی حکومت شیعہ ہے اور اس میں اہل سنت کے حقوق ضائع ہو رہے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ان علاقوں میں اسلامی حکومت تشکیل دی جائے۔ انہی اہداف کے حصول کے لیے بم دھماکے اور خودکش حملوں کا آغاز کر دیا گیا اور آخری چند سالوں میں کئی ہزار عراقیوں کو خون میں نہلا دیا۔ ان دہشت گردی کی کارروائیوں میں نہ صرف اہل تشیع کو نشانہ بنایا گیا بلکہ معتدل اہل سنت بھی ان کے حملوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ادھر 15 مارچ 2011ء کو شام کے بحران کا آغاز ہوا تو چوںکہ صوبہ الانبار کی سرحد شام سے ملتی ہے، اس لیے الانبار میں ان گروہوں کی فعالیت تیز ہوگئی اور یہیں سے سلفی و جہادی گروہ شام کی طرف جہاد کے لیے نکلے اور یہ نعرہ لگایا کہ ہم سرزمین جہاد پہ جا رہے ہیں۔ 2011ء کے آخر میں القاعدہ سے مربوط ایک گروہ تشکیل دیا گیا کہ جس کا نام (جبھۃ النصرہ) اور اس کی سربراہی (ابو محمد الجولانی) کے پاس تھی، جو عراق میں موجود القاعدہ کے نیٹ ورک کے تحت شام میں اپنی سرگرمیاں انجام دے رہا تھا۔
لیکن جب جبھۃ النصرہ میں اختلاف ہوا تو ایک اور گروہ نے جنم لیا، جس کا نام (دولت اسلامی عراق و شام) رکھا گیا، جو داعش کے نام سے مشہور ہے۔ اس گروہ میں دراصل عراق اور شام کی القاعدہ کی کریم ہے۔ الانبار کا سرحدی علاقہ ایک اہم ترین نقطہ ہے کہ جہاں سے دہشت گردوں کو ہر طرح کی مدد ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ گروہ شام کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں زیادہ سرگرم عمل ہے۔ آخری چند ماہ سے الانبار شدید بحران کا شکار ہے، کیونکہ دہشت گرد عوامی لباس میں ان علاقوں میں پناہ لے چکے ہیں، جب حکومت نے ان کے خلاف کارروائی کی تو انہوں نے اس بات کو ہوا دی کہ عراق کی شیعہ حکومت اہل سنت کو کچلنا چاہتی ہے، اہل سنت کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے اور ان کے حقوق کو بھی تلف کیا جا رہا ہے، ادھر سے عراق کے بعض سیاستدان بھی ان کے ہم خیال ہیں۔ حقیقت میں ان تمام واقعات کے پیچھے سعودی عرب کا ہاتھ عیاں ہے، اس لیے کہ سعودی عرب کبھی نہیں چاہتا کہ مشرق وسطٰی میں ایک اور شیعہ حکومت برسر اقتدار آئے۔ ادھر شام میں بشار الاسد کی حکومت کو بھی ایک لمحہ کے لیے برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے، کیونکہ شام اور عراق مشرق وسطٰی میں ایران کے قریبی دوست شمار ہوتے ہیں اور یہ دوستی امریکہ، اسرائیل، قطر اور سعودی عرب کے مشترکہ مفادات کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔