مضامین

سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات: تند و تیز طوفانوں کی زد پر (تیسری قسط)

تحریر: ڈاکٹر احمد ملی
(سربراہ شعبہ بین الاقوامی سیاسیات لبنان یونیورسٹی)

گزشتہ سے پیوستہ

واشنگٹن کے خلاف سعودی عرب کی ناراضگیاں:
پچھلے چند مہینوں کے درمیان سعودی قیادت اپنی ’’ خاموش خوف‘‘ والی پالیسی سے باہر نکل آئی ہے اور اس مرتبہ تو اوباما رژیم کو انتباہ کیا ہے کہ وہ ان کے خلاف ہونے والی کاروائی سے باز آئے۔ یہ بات انہوں شاہی خاندان کے خاص حلقے میں کہی ۔ اور یہ وہ واحد راستہ ہے کہ جس کے ذریعے سعودی عہدیداران سمجھتے ہیں کہ واشنگٹن اپنی پالیسی تبدیل کرے گا لیکن Saimon Hardrson اپنی کتاب ’’شاہ عبداللہ کے بعد: سعودی عرب میں خلافت!‘‘ میں سعودی عرب کے اس موقف کے غلط ثابت ہونے کو بیان کرتاہے۔اب سعودی عرب کے نئے بیانات سامنے آئے ہیں کہ سعودی وزیرخارجہ سعود الفیصل کو گذشتہ ستمبر کے اوائل میں اقوام متحدہ کی کانفرنس میں خطاب کرنے سے روکا گیا اور اس کے ٹھیک دو ہفتے بعد ریاض نے اقوام متحدہ کی تاریخ میں ایک ڈرامائی اقدام اٹھایا وہ یہ کہ ۱۸اکتوبر کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی رکنیت کو چھوڑ دیا جو نیویارک ڈپلومیسی کے لئے ایک نیا موقف شمار ہوگا۔ جیساکہ یہ معلوم ہوا کہ اسی رکنیت کے حصول کے لئے سعودی عہدیداران گذشتہ تین سالوں سے امریکہ کے سامنے جھکے ہو ئے تھے ۔
سکیورٹی کونسل کے ممبر شب چھوڑنے کے اعلان کے تین دن بعد Wall Street Journal اور Rueters News Agency کے مطابق دو یورپی ڈپلومیٹ کہتے ہیں کہ سعودی خفیہ ایجنسی کے سربراہ امیربندر بن سلطان نے انہیں کہا کہ خطے میں رونما ہونے والے واقعات کے حوالے سے وہ واشنگٹن سے احتجاج کرتے ہیں کہ وہ شام کے مسئلے میں کوئی ٹھوس اقدام کیوں نہیں اٹھا رہے ؟ ادھر Wall Streetیہ بھی لکھتا ہے کہ بندر بن سلطان امریکی سی ٓئی اے سے بھی نالاں ہیں کیونکہ امریکن سی آئی اے نے شام کے ساتھ لڑنے والے باغیوں کی تربیت کرنے والے معاہدے سے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا ہے۔ اور اس حوالے سے وہ شام کے معاملے میں دوسرے حلیف کے ساتھ مثلاً فرانس اور اردن وغیرہ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں بندر بن سلطان نے مزید کہا کہ اس نے سکیورٹی کونسل کا استعفیٰ دے کر امریکہ پیغام دیا ہے نہ اقوام متحدہ کو۔
بندر بن سلطان نے امریکہ کے خلاف یہ پیغام کب اور کس کے ذریعے دیا ؟ اس میں ٹائم کے حوالے سے یہ بات اس وقت سامنے آئی جب ۲۱ اکتوبر کو پیرس میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل ایک عشائیے کے دوران سعودی عرب کی طرف سے اعتراضات سامنے آئے، سعودی امیر بندر بن سلطان نے فرانس کے سعودیہ میں متعین سفیر Bertrand Besarconot کو اس پیغام رسانی کے لئے مناسب سمجھا لہٰذا انہیں ہفتہ وار تعطیل ۱۹،۲۰ اکتوبر کے بعد جدہ میں مدعو کیا۔لیکن اس کے بعد ریاض میں واپس لوٹنے فرانسسی سفیر نے اپنے یورپی ہم منصبوں کو اس ملاقات کے بارے اطلاع دی جسے Wall Street Jurnalکے مطابق صرف اچانک ملاقات قراردیا ۔ اس حوالے سے ان کے جانشین امیر الفیصل بھی اوباما رژیم کے خلاف حملہ کرنے میں پیچھے نہ رہا موصوف واشنگٹن میں سفیر رہنے کے ساتھ ایک طویل مدت تک ۱۹۷۹تا ۲۰۰۱ تک سعودی اینٹلجنس کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں اور اب اس پیغام رسانی کے لئے بھی ان کو ہی منتخب کیاگیا یہ پیغام چاہے۲۲اکتوبر کو امریکہ عرب معاہدے کی سالانہ کانفرنس میں خطاب کے ذریعے یا امریکی ذرائع ابلاغ کے ذریعے یا پھر خاص طور سے ۴نومبر کو واشنگٹن پوسٹ کو دیئے گئے ایک طویل انٹریو کے ذریعے ہو، کہ اوباما کی تمام سیاست اس وقت شام اور ایران کی طرف ہے۔جو اس کی سنگین غلطی ہے اور رونے کا مقام ہے جبکہ حاصل کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے۔ ان کے خیال کے مطابق امریکہ اپنی اس سنگین غلطی کا ازالہ صرف ایک طریقے سے کر سکتا ہے وہ یہ کہ وہ مسئلہ فلسطین جلد از جلد حل کرے اور ایران پر پابندیاں لگائیں جو اپنے آپ کو فلسطین اور شام کو آزاد کرانے کے دعویدار کرتا پھرتا ہے۔
یہ تمام تفصیلات جو سعودی عہدیداراان اور اوباما رژیم کے درمیان ہیں صرف یہی نہیں ہیں بلکہ اس خطے کے حوالے سے امریکی سیاست ایک خاص تفصیل کے حوالے پر محدود نہیں ہے بلکہ سعودی عرب کے حوالے تو اس کے غیر واضح صورت حال تو مکمل اختلاف موجود ہے۔
۲۰۰۱ء میں بش رژیم کے درمیان سعودی امیرسعود الفیصل نے کہا تھا کہ ’’ امریکہ کے ساتھ معاملات کرنا کسی عاقل کو پاگل کرنے کے مترادف ہے‘‘ تو اب موصوف اس وقت کیا کہہ سکتا ہے کہ ریاض اور اوباما رژیم کے درمیان تعلقات کی نہج کیا ہو جبکہ یہ اختلاف بش رژیم کے دور سے کہیں زیادہ ہے۔بہرحال تمام شواہد کے مطابق ریاض اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات پہلے کی طرح نہیں رہے اور اب تو تعلقات میں رخنے پڑ گئے ہیں لہٰذا اس سرد جنگ کے بعد سابقہ حالات پر واپس آنا بہت مشکل ہے۔
اور یہ بھی کہ اب تو امریکہ کو سعودی تیل کی بھی اتنی ضرورت نہیں رہی اس لئے کہ اب وہ اس حوالے سے خود پوری دنیا میں تیل سپلائی کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔پھر یہ بھی کہ Crestaver Dafedsonنے اپنی کتاب ’’ شیخوں کے بعد: خلیجی ممالک زوال پذیر ہونگے‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’ دہایؤں پر محیط امریکہ اور سعودیہ تعلقات رہے ہیں اب امریکہ کو مجبوری بھی نہیں ہے کہ تعلقات سابقہ نہج پر ہی ہوں‘‘۔
اس دوران اگرچہ سعودیوں کو امریکہ کے حوالے سے پریشان کن مراحل سامنے آئے ہیں لیکن وہ یہ کوشش بھی کررہے ہیں کہ نیشنل سکیورٹی کونسل کے اگلے مرحلے میں دوبارہ سعودی عرب کو شامل کیا جائے لیکن اب تک امریکہ کی طرف س
ے کسی کومتعین نہیں کیا گیا ہے جو سعودی عرب کے ساتھ معاملات طے کرے اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر سعودی عرب امریکی خارجہ پالیسی اور نیشنل سکیورٹی کے پلان میں دوبارہ شامل ہو۔
یہ بات امریکہ کی نظر میں سعودی عرب کو گرانا نہیں ہے بلکہ یہ تو پوری دنیا کے حوالے سے امریکہ کی سیاسی پالیسی کا حصہ ہے۔
جیساکہ امریکی نیشنل سکیورٹی کی مشیر سوزان رائس نے اکتوبرمیں اخبار ’’ نیویارک ٹائم‘‘ کو انٹر یو دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ ’’ درحقیقت وائٹ ہاؤس امریکہ کو جنگوں سے نکالنے کے لئے نئی سیاسی پالیسی وضع کررہا ہے ‘‘ اور موصوفہ نے آگے مزید کہا کہ ’’ یہ تمام کام ہم چوبیس گھنٹے اور ایک ہفتے میں تو نہیں کرسکتے گرچہ اس کی اہمیت کہیں زیادہ کیوں نہ ہو‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ اب سعودی عرب بھی اس کی نظر میں دیگر ممالک کی طرح ہے اب وہ سابقہ گرم جوشی والے تعلقات ان کے درمیان نہیں رہے۔ اب تو امریکی قراردادوں میں کچھ مزید چیزیں بھی آئی ہیں ۔یہ کہ ان کے سعودیوں کے ساتھ پہلے کچھ معاملات تھے اب کچھ اور ہیں اور یہ کہ ایک طویل عرصے سے دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات رہے ہیں، مثلاً اگر واشنگٹن ایران کے یورینیم افزودگی پر پابندی اور سعودیوں کی خطے میں اثرورسوخ پیدا نہ کراتے توبغیر کسی شک وشبہ کے ایران ایٹمی طاقت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوتا۔ جبکہ دوسری جانب امریکی عہدیداران اس اسلامی ماڈل کی طرف توجہ نہیں کرتے جو سعودی عرب پیش کررہا تھا اور کوشش کررہے تھے کہ یہ مختلف ممالک میں موجود اسلامی فرقوں کو جمع کرے اور اس قطع نظر کہ ضرورت کے مطابق مزید فرقے بناناخود امریکہ کے اپنے منصوبے میں شامل ہے۔
بہرحال سعودی عرب کی جانب سے اس غم وغصے کے مقابلے میں اوباما رژیم کی طرف سے کوئی ٹھوس موقف سامنے نہیں آیا ہے بلکہ اس کے بدلے اس نے خاموش پالیسی اختیار کی ہوئی ہے۔سعودی عرب کا غم وغصہ اور ان کی سوچ کے لئے ماحول ابھی سازگار نہیں تھا جس میں انہوں نے امریکہ کو اپنا پیغام سنایا جبکہ خطے کے حوالے سے امریکہ کے مفادات پہلے مرحلے میں ہوتے ہیں ۔
جب سعودیہ کی نسبت امریکی رسمی موقف سامنے آیا کہ وہ کام کرنے والا نہیں ہے تو سعودیوں کے خلاف امریکہ کے مختلف غیر رسمی حلقوں میڈیا والے،اکیڈمک ادارے ، محققین اور سابقہ حکومتی آفیسرز کی جانب سے جا بجا سخت قسم کی تنقیدسامنے آنا شروع ہو گئی۔
یہ بعید نہیں ہے کہ ریاض کے حوالے سے ان تنقیدوں کے پیچھے امریکی حکومتی ادارے موجود نہ ہوں۔ان میں خاص طور سے ٹائم میگزین کے نومبر کے شمارے کے اداریے میں فرید زکریا نے ’’ ناراض سعودی: کتنی بڑی بات ہے!‘‘ کے عنوان کے ذیل میں کافی کچھ لکھا ہے۔ موصوف امریکی خارجہ پالیسی کے ساتھ مضبوط رابطے کے حوالے سے مشہور ہے اس کے علاوہ وہ CNN TV میں زیادہ تر خارجہ امور کے حوالے سے ہفتہ وار پروگرام کرتا ہے۔ان کا مضمون یہ ایک ذیل عنوان سے شروع ہوتا ہے۔ امریکہ کے دنیا میں زیادہ تر اپنے ذمہ داریوں چھوڑنے کے بارے میں ہم کیوں نہیں سوچتے ہیں؟ وہ آگے مزید لکھتے ہیں ’’ اگر امریکی خارجہ پالیسی میں زیادہ ذمہ داریوں کوچھوڑنا جائز ہے تو وہ ضرور سعودی عرب کو بخش دے گا ۔۔۔ لیکن اس خطے کے حوالے سے اوباما قیادت کے جو بھی خیالات ہوں لیکن یہ ضروری ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کے اندر آل سعود کو قبول کرنے کی گنجائش ہونی چاہئے!‘‘۔
زکریا سابقہ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن سے نقل کرتے ہیں کہ جب جنوری ۲۰۰۹ء میں وکی لیکس نے موصوفہ کے حوالے سے لکھا تھا کہ سعودی عرب ’’ دہشت گردوں کو مالی سپورٹ کرتا رہے گا‘‘ اوراس نے طالبان سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کو بھی مالی سپورٹ کی ہے‘‘ لیکن Stiorat Lefi جو مالی ادارے کے ایک بڑے عہدے پر فائز ہے زکریا اس سے نقل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انہوں نے ۲۰۰۷ء کو ABC TV پر وضاحت کے ساتھ کہا تھا کہ’’ اگر میں جس سے اپنا ہاتھ اٹھاؤں اور مال دینا چھوڑ دوں تو وہ سعودی عرب ہوگایہ دنیا کے گوشہ وکنار کے متشدد اسلامی نظرئے پھیلانے میں یہی ملک ملوث ہے۔ گذشتہ چار دہائیوں سے اس ملک نے تیل کے تمام آمدنی اسلام کے متعصب اور متشدد چہرے پیش کرنے کے لئے وہابی لوگوں کی خدمت میں پیش کی ہے‘‘۔ اور زکریا مزید لکھتا ہے کہ پاکستانی سابق وزیر قانون اقبال حیدر کی ۲۰۱۲ء کے بیان کو نقل کرتا کہ ’’ چاہے طالبان ہو یا لشکر طیبہ، ان کے نظریات سعودی وہابی کے ہی نظریات ہیں‘‘َ اور مزید کہا ’’ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے تمام وہابی گروہوں کو سعودی عرب ہی سپورٹ کرتا ہے‘‘ بہرحال وجوہات جو بھی ہوں ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ سعودی عرب اس وقت امریکہ سے سخت ناراض ہے لیکن ہم یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ واشنگٹن بھی کیا کوئی غلطی کرسکتا ہے؟
جاری ہے۔۔۔۔۔۔ 

گزشتہ دوسری قسط کا لنک: 
http://shianews.com.pk/index.php?option=com_k2&view=item&id=8615:2014-04-03-15-30-06&Itemid=108

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button