جشن ولادت باقر العلوم علیہ السلام (خصوصی تحریر)
ترتیب و تزئین: جاوید عباس رضوی
آپ کا نام محمد (ع) تھا اور باقر لقب، بارہ اماموں میں یہ خصوصیت آپ ہی کو حاصل ہے کہ آپ کا سلسلہ نسب ماں اور باپ دونوں طرف سے رسول اکرم (ص) تک پہنچتا ہے، آپ کی ولادت روز جمعہ یکم رجب 57ھ میں ہوئی، آپ 3 برس کے تھے کہ امام حسین (ع) نے مدینہ سے سفر کیا، اس کمسنی میں راستے کی تکلیفیں اور کربلا کے مصائب کو برداشت کیا، 38 برس کی عمر مبارک تھی کہ جب آپ کے والد گرامی امام زین العابدین (ع) کی وفات ہوئی، اہلبیت (ع) کے مخصوص علوم کی کتابیں آپ کے سپرد ہوئیں پھر امام نے ضروری وصیتیں کیں، اب امامت کی ذمہ داریاں امام محمد باقر (ع) پر آئیں اس دور میں سلطنت بنی امیہ کی بنیادیں ہل رہی تھیں جس کی وجہ سے آپ کو خلق خدا کی اصلاح و ہدایت کا کچھ زیادہ موقعہ مل گیا۔
امام محمد باقر (ع) کے زمانے میں جب حالات سازگار ہوئے تو علوم اہلبیت (ع) کا دریا پوری طاقت کے ساتھ امنڈا اور ہزاروں پیاسوں کو سیراب کرتا ہوا دنیا میں پھیل گیا جس کی وجہ سے آپ کا لقب باقر مشہور ہوا جس کا معنیٰ اندرونی باتوں کو ظاہر کرنے والا ہے، آپ سے علوم اہلبیت (ع) حاصل کرنے والوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچی ہوئی تھی ایسے افراد بھی آپ سے علمی فیوض حاصل کرتے تھے جو عقیدۃً شیعہ نہ تھے بلکہ اہل سنت کے بلند مرتبت علماء بھی آپ سے علمی استفادہ کرتے تھے، آپ کے اخلاق ایسے تھے کہ دشمن بھی قائل تھے چنانچہ ایک شخص اہل شام میں سے مدینہ میں قیام رکھتا تھا اور اکثر محمد باقر (ع) کے پاس آکر بیٹھا کرتا تھا، اس کا بیان تھا کہ مجھے اس گھرانے سے ہرگز کوئی خلوص و محبت نہیں مگر آپ کے اخلاق کی کشش کی وجہ سے میں آپ کے پاس آنے اور بیٹھنے پر مجبور ہوں۔
آپ کے زمانے تک حکومت کی طرف سے کوئی اپنا سکّہ نہیں بنایا گیا تھا، رومی سلطنت کے سکّے اسلامی حکومت میں رائج تھے، ولید بن عبدالملک کے دور میں سلطنت شام اور سلطان روم کے درمیان اختلاف ہوگیا جس میں رومی سلطنت نے دھمکی دی کہ وہ اپنے سکّوں پر رسول اکرم (ص) کی شان میں گستاخی کے الفاظ کندہ کرائے گا، جس کو سن کر ولید بن عبدالملک سخت پریشان ہوا اور سمجھ نہ سکا کہ کیا کرے، تو امام محمد باقر (ع) نے ولید کو مشورہ دیا کہ مسلمانوں کو خود اپنا سکّہ ڈھالنا چاہیئے، امام کی اس تجویز کو تسلیم کیا گیا اور پہلی مرتبہ مسلمان حکومت کا سکّہ وجود میں آیا۔
اقوام حکیمانہ باقر العلوم (ع)
*جو شخص کسی مسلمان کو دھوکہ دے یا ستائے وہ مسلمان نہیں۔
* یتیم بچوں پر ماں باپ کی طرح مہربان رہو۔
* بدترین شخص وہ ہے جو اپنے کو بہترین شخس ظاہر کرے۔
* صلہ رحم گھروں کی آبادی اور طول عمر کا باعث ہے۔
* سلام اور خوش گفتاری گناہوں سے بخشش کا باعث ہے۔
* بڑے گناہوں کا کفارہ بیکسوں کی مدد اور غریبوں کی دلجوئی میں ہے۔
* سب سے بڑی طاقت خواہشات نفسانی پر غلبہ پالینا ہے۔
* ایک دوسرے کی مدد کی توفیق سے بڑھ کر کوئی عافیت نہیں۔
* کم عقلی سے بڑھ کر کوئی مصیبت نہیں اور اعتقاد کی کمی سے بڑھ کر کوئی کم عقلی نہیں۔
* قرض کم کرو تاکہ آزاد رہو، گناہ کم کرو تاکہ موت میں آسانی ہو۔
کاہلی سے بچو، کاہل اپنے حقوق ادا نہیں کرسکتا۔
* تم میں سب سے زیادہ عقلمند وہ ہے جو نادانوں سے فرار کرے۔
* جس معاملے میں پوری واقفیت نہیں اس میں دخل مت دو ورنہ برے اور بدکردار لوگ تمہیں ملامت کا نشانہ بنائیں گے۔
* ناگہانی حادثات سے بچانے والی کوئی چیز دعا سے بہتر نہیں۔
* ظلم فوری عذاب کا باعث ہے۔
* لوگوں سے معاشرت نصف ایمان ہے اور ان سے نرم برتاؤ آدھی زندگی۔
* ہمیشہ لوگوں سے سچ بولو تاکہ سچ سنو۔
* جو خود ستائی کرتا ہے اپنے آپ کو خوار کرتا ہے۔
* خداوند مظلوموں کی فریاد سنتا ہے اور ستمگاروں کی تاک میں ہے۔