براعظم افریقہ میں اسرائیل کے سیاسی اہداف (خصوصی تحریر)
تحریر: امیر حسین سجادی
اسلام ٹائمز – گھانا (Ghana) وہ پہلا افریقی ملک تھا جس نے اسرائیل کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر قبول کیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم اس براعظم میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور اسٹریٹجک مقاصد کے حصول کیلئے کوشاں نظر آتی ہے۔ افریقی ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کا صحیح تاریخی جائزہ لینے کیلئے اس براعظم کے ساتھ اسرائیلی تعلقات کی وسعت اور مختلف پہلووں پر ایک دقیق نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
اسرائیل نے گذشتہ پچاس برس کے دوران مختلف قسم کے ہتھکنڈوں اور اسٹریٹجک پالیسیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کامیابی کے ساتھ افریقی ممالک سے اپنے سیاسی – سفارتی، ثقافتی – معاشرتی، فوجی، سیکورٹی اور اقتصادی تعلقات کے دائرے کو وسعت بخشتے ہوئے ان میں تنوع پیدا کیا ہے۔ یہ تعلقات کئی مراحل سے گزرے ہیں اور ان میں کئی طرح کے اتار چڑھاو دیکھے گئے ہیں۔ اسرائیل اور افریقی ممالک کے درمیان تعلقات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے پیچھے کئی قسم کے محرکات اور مقاصد کارفرما رہے ہیں۔ مشرق وسطی کے خطے پر ان تعلقات کے اثرات، عرب دنیا اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازعات، امن مذاکرات اور خطے کے ممالک کے ساتھ اسرائیل کی جانب سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی کوششیں وہ عوامل ہیں جو ان تعلقات میں زیادہ موثر ثابت ہوئے ہیں۔ براعظم افریقہ اور اس میں واقع ممالک کو اعلی نسل پر مبنی اسٹریٹجک صہیونیستی سوچ اور نظریئے میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔
یہودی مفکرین کی نظر میں فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل مکانی اور اسرائیل کے قیام سے قبل دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کو ایک جگہ جمع کرنے اور بسانے کیلئے جو جگہ مدنظر تھی وہ دو افریقی ممالک لیبیا اور یوگنڈا ہی تھے۔ آج جب فلسطین پر یہودیوں کے ناجائز قبضے کو ساٹھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے، بھی براعظم افریقہ اسرائیل کی اسٹریٹجک پالیسیوں میں انتہائی اہمیت کا حامل خطہ جانا جاتا ہے۔ اسرائیل کے سیاسی اور اسٹریٹجک تھنک ٹینکس کی نظر میں براعظم افریقہ ایک ایسے خطے کے طور پر جانا جاتا ہے جو عرب دنیا کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کی طاقت میں اضافہ کرنے کیلئے انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس براعظم نے گذشتہ پچاس برس کے دوران عرب دنیا اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازعات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ براعظم افریقہ اور مشرق وسطی کے ممالک کے درمیان تعلقات پر ان تنازعات کے اثرات کو کئی سطح پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لہذا اسرائیل اور افریقی ممالک کے درمیان تعلقات کے مختلف مراحل کا بغور جائزہ لینے اور ان تعلقات کے مختلف پہلووں پر دقیق نظر ڈالنے سے ہم اسرائیل کی خارجہ پالیسیوں میں براعظم افریقہ کے اہم مقام کا صحیح اندازہ لگا سکتے ہیں اور اس خطے کی جانب اسرائیل کی خصوصی توجہ کی بنیادی وجوہات کو بھی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اس قسم کے موضوعات کے بارے میں بحث و گفتگو ہمیں اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کی حقیقت کو درک کرنے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح یہ موضوعات ہمیں مندرجہ ذیل امور کو بھی سمجھنے میں بھی مدد دے سکتے ہیں۔
۱۔ اسرائیل کی علاقائی اور بین المللی پالیسیوں میں براعظم افریقہ کی حقیقی اہمیت،
۲۔ خطے اور دنیا میں اسرائیل کے اسٹریٹجک اہداف کو جاننا،
۳۔ دنیا، خطے اور خاص طور پر عالم اسلام میں اسرائیل کو درپیش حقیقی اور اسٹریٹجک خطرات کی پہچان، اور
۴۔ خطے اور دنیا میں اپنا سیاسی اثرورسوخ بڑھانے کیلئے اسرائیل کی جانب سے استعمال ہونے والے ہتھکنڈوں اور طریقوں کی پہچان۔
براعظم افریقہ میں اسرائیل کے چند اہم سیاسی اہداف و مقاصد مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ اقوام متحدہ میں افریقی ممالک کے ووٹ کو اپنے حق میں استعمال کرنا:
براعظم افریقہ خاص طور پر افریقہ کے جنوبی صحرائی خطے میں اسرائیل کا اثرورسوخ 1960ء کے عشرے میں اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا اور 1970ء کے عشرے کے آغاز تک جاری رہا۔ لیکن 1973ء میں اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان جنگ کے بعد یونائٹڈ افریقن آرگنائزیشن کے رکن افریقی ممالک نے اجتماعی طور پر اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کر دیئے جس کے نتیجے میں براعظم افریقہ میں اسرائیل کا اثرورسوخ تقریبا ختم ہو کر رہ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ افریقی یونین کے 52 رکن ممالک جو اقوام متحدہ میں ایک بڑا ووٹ بینک تشکیل دیتے ہیں ہمیشہ سے عرب ممالک کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف ووٹ دیتے آئے ہیں۔ لہذا اسرائیل کی پوری کوشش رہی ہے کہ وہ جہاں تک ہو سکے اس صورتحال کو تبدیل کر سکے اور زیادہ سے زیادہ افریقی ممالک کو اپنی طرف کھینچ سکے۔
۲۔ عرب اسلامی ثقافت سے مقابلہ:
افریقہ ایک لمبے عرصے تک فرانس اور برطانیہ کی کالونی رہا ہے۔ فرانس کا اثرورسوخ اب تک اس خطے میں باقی ہے لیکن برطانیہ کا اثرورسوخ امریکہ کے حق میں کم ہوتا چلا گیا ہے۔ ایسے حالات میں اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کی کوشش ہے کہ وہ براعظم افریقہ میں امریکی اثرورسوخ کے سائے تلے اپنی پراسرار سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہوئے ان میں بتدریج شدت لائے۔ ان سرگرمیوں کا مقصد اس خطے سے اسلامی عرب ثقافت کا خاتمہ کرنا ہے کیونکہ اسرائیل اسلامی عرب ثقافت کو براعظم افریقہ میں اپنے لئے بہت بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ اس وقت بھی اسرائیل کے سینکڑوں گھاگ سفارتکار براعظم افریقہ میں بیٹھے ہیں جو اس کالے براعظم کو جغرافیائی طور پر مزید چھ
وٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں اور ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہیں۔ براعظم افریقہ کے جنوب میں واقع غیرعرب ممالک کیلئے کالے افریقہ کی تعبیر کا استعمال اور شمالی افریقہ میں واقع عرب ممالک کیلئے سفید افریقہ کا لفظ استعمال کرنا درحقیقت اسرائیل ہی کی نسل پرستانہ سرگرمیوں کا شاخسانہ ہے۔
۳۔ خطے میں یہودی گروہوں کو برسراقتدار لانے کی کوشش:
اسرائیل اپنی خارجہ پالیسی کی روشنی میں افریقی ممالک میں موجود یہودی اقلیتوں اور گروہوں کی حمایت کرنے میں مصروف ہے تاکہ جہاں تک ہو سکے انہیں اقتدار سے نزدیک کر سکے۔ ان سرگرمیوں کا مقصد افریقی ممالک میں عرب ممالک کے اثرورسوخ کو ختم کرنا یا کم کرنا ہے۔ افریقی ممالک میں بڑے پیمانے پر یہودی کمپنیوں کی موجودگی نے اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کو ان ممالک میں طاقت کی تبدیلی کے ذریعے اپنے اسلام اور عرب مخالف اہداف و مقاصد کے حصول کیلئے مزید امیدوار کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی افریقہ میں مقیم یہودی اقلیت کا شمار دنیا کی یہودی اقتلیوں میں سب سے زیادہ دولت مند اقلیت میں ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض باخبر ذرائع کے مطابق جنوبی افریقہ میں مقیم یہودیوں کی جانب سے اسرائیل کو بھیجی جانے والی مالی امداد دوسرے نمبر پر ہے جس کے بعد امریکہ کی جانب سے دی جانے والی مالی مدد کا نمبر آتا ہے۔
۴۔ افریقہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اثرورسوخ کو روکنا:
ایران کے سابق صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کی جانب سے 2008ء میں مشرقی افریقہ کے ممالک جیبوتی، کینیا اور کومور کے دوروں کے صرف چند ماہ بعد ہی اسرائیل کے شدت پسند وزیر خارجہ اویگڈور لیبرمین ایک اعلی سطحی وفد کے ہمراہ افریقہ پہنچ گئے جس کا مقصد ایران کے اثرورسوخ کو روکنا تھا۔ ان کے ہمراہ اعلی سطحی وفد میں اسرائیل کے سیاسی، اقتصادی اور فوجی شعبوں سے وابستہ ذمہ داران شامل تھے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اس وفد کے ہمراہ ایتھوپیا، کینیا، گھانا، یوگنڈا اور نائجیریا کا دورہ کیا جس میں خطے میں ایران کے اثرورسوخ کو روکنے پر غور و فکر کیا گیا۔
۵۔ مسئلہ فلسطین کے بارے میں افریقی حکام کے موقف کو تبدیل کرنا:
براعظم افریقہ میں اسرائیل کا ایک اور اہم سیاسی ہدف افریقی ممالک کے حکام کو مسئلہ فلسطین کے بارے میں مظلوم فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی حمایت سے دستبردار کرنا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کے مسلمان عوام کئی عشروں سے غاصب صہیونیستی رژیم کے خلاف جدوجہد آزادی میں مصروف ہیں۔ جبکہ افریقی ممالک کے حکام اپنے بعض سیاسی اور اقتصادی مسائل کی وجہ سے اب تک مسئلہ فلسطین کے بارے میں ایک واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگرچہ افریقی ممالک کے سیاسی رہنما مختلف مواقع پر مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت کا اعلان کرتے رہتے ہیں اور اسی طرح افریقہ میں سرگرم این جی اوز کی بڑی تعداد بھی مسئلہ فلسطین کے بارے میں مثبت موقف اپنائے ہوئے ہے اور فلسطین میں جاری انتفاضہ کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں لیکن اب تک براعظم افریقہ میں اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے خلاف کوئی عملی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔
۶۔ بین الاقوامی اداروں میں موجود افریقی اہم شخصیات کی توجہ کا حصول:
افریقی ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے پیچھے اسرائیل کا ایک اور اہم مقصد بین الاقوامی اداروں میں موجود اس خطے کی اہم سیاسی شخصیات کی حمایت اور توجہ حاصل کرنا ہے۔ اسرائیل ان سیاسی رہنماوں کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسرائیل مشروعیت کے بحران سے روبرو ہے اور اس بحران کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر پائے جانے والے شدید دباو سے نجات حاصل کرنے کیلئے ہاتھ پاوں مار رہا ہے۔ افریقی ممالک میں اس کی سفارتی سرگرمیاں بھی انہیں کوششوں کا حصہ ہیں جن کے ذریعے وہ افریقہ کے خطے میں ایک اسرائیل مخالف محاذ تشکیل پانے کی ممانعت کر رہا ہے۔ بعض افریقی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو قبول کئے جانے نے اس براعظم میں اسرائیل کے نامشروع ہونے کو کم رنگ کر دیا ہے۔
انشاءاللہ اگلے حصے میں مختلف افریقی ممالک میں اسرائیل کی پالیسیوں اور سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔