مضامین

سانحہ عباس ٹاﺅن، متاثرہ فلیٹس کی تعمیرمیں 1کروڑ چالیس لاکھ روپے کے غبن کاانکشاف

شیعہ نیوز: کراچی کے علاقے عباس ٹاﺅن میں ۳ مارچ 2013کی رات قیامت بن کر ٹوٹی، حالات معمول کے مطابق چل رہے تھے ، علاقہ مکین نماز مغربین سے فارغ ہوکر روز کے معمول کے مطابق مصروف تھے، خواتین اپنے گھر وں میں رات کے کھانے کا انتظام کررہی تھیں کہ اچانک ایک زور دار دھماکے کی آواز نے سب کچھ ختم کے کرکے رکھ دیا، دھوئیں کے بادل چھٹے تو منظر یک دم سکینڈوں میں بدل گیا، بلند و بالا کھڑی عمارتیں تباہ و برباد ہوگئیں ہر طر ف آہ و بکا کی آواز یں گونج رہی تھیں۔

یہ سانحہ مومینن کی آبادی عباس ٹاﺅن میں پیش آیا، عباس ٹاﺅن ابو الحسن اصفہانی روڈ پر واقع مومنین کی ایک چھوٹی سی آبادی ہے،اس آبادی کے اطراف میں زیادہ تر فلیٹس آباد ہیں، جس جگہ یہ دھماکہ ہوا وہ عباس ٹاﺅن میںداخل ہونے کے لئے ایک چوڑی سڑک ہے، اس سڑک کے دونوں اطراف میں اقراءسٹی اور رابعہ فلور نامی فلیٹس تھے ان فلیٹس میں مکس آبادی تھی لیکن زیادہ تر شیعہ مومینن آباد تھے، دھماکہ ایک کار میں نصب 400کلو باوردی مواد کے سبب ہوا،دھماکے کی شدت نے اطراف کے فلیٹس اور مکانات کو شدید نقصان پہنچا یا جبکہ 58سے زائد افراد جن میں بچے ،بوڑھے ،خواتین اور مرد شامل تھے شہید ہوئے اور 128افراد اس دھماکے کے نتیجے میں زخمی ہوئے۔
دھماکے کے اگلے روز سیاسی بازار گرم ہوا، میڈیا پروگرامز کا ایک سلسلے شروع ہو جو ایک سے دوماہ تک جاری رہا، حکومت نے متاثریں کی امداد کے لئے نقد رقم اور رہائش کے لئے نئے فلیٹس تعمیر کرنے کا اعلان کیا، اس سلسلے میں ملت کی تنظیموں نے بہت کلیدی کردار ادا کیا،لیکن چند سازش اور مفاد پسند عناصر نے مل کر فلیٹس کی تعمیرات کے حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی ، کمیٹی کے ایک رکن نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کمیٹی کی تشکیل میں ایم کیو ایم کا ہاتھ تھا کیونکہ سانحہ عباس ٹاﺅن میں شیعہ تنظیموں اور اداروں نے ایم کیو ایم کی دکان کو بند کردیا تھا اور سارے معمالات ،جن میں متاثرین کی رہائش،طعام و دیگر ضروریات کے تمام انتظامات ملت کی تنظیمیں اور ادارے کر رہے تھے۔
اس رکن کا کہنا تھا کہ کمیٹی علامہ طالب جوہری کی سربراہی میں بنائی گئی تھی، جس میں مرکزی تنظیم عزا کے ایس ایم نقی، اشعر ضمیر عابدی سمیت دیگر افرا د شامل تھے، سانحہ کے متاثریں کے لیئے حکومت کی جانب سے 28کروڑ روپے کا ٹینڈر پاس کیا گیا، جس میں سے 13کروڑ پچاس لاکھ تعمیرات کے لئے مختص کئے گئے جبکہ 14کڑور پچاس لاکھ زخمیوں اور شہداءکی امداد کے لئے تھے، حکومت نے پہلی مارچ 2014تک تعمیراتی پروجیکٹ مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن دی تھی ،اور طے یہ پایا تھا کہ ۳ مارچ سانحہ عباس ٹاﺅں کی برسی کے موقع پر ان فلیٹس کا افتتاح کیا جائے گا جس میں پیپلز پارٹی کی شہلا رضا اور گورنر سندھ ڈاکڑ عشرت العبا د کو آنا تھا، مگر یہ پروجیکٹ ابھی تک مکمل نا ہوسکا۔
اس پروجیکٹ کی سربراہی وہ کمیٹی کر رہی ہے جسکی قیادت علامہ طالب جوہری کے پاس ہے، عباس ٹاﺅن کی ایک رہائشی نے بتایا کہ پروجیکٹ نامکمل ہونے کی وجہ ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے کی کثیر رقم کا غبن ہے ، کمیٹی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ حکومت کو یہ رقم دینی ہے ،لیکن قانون کی رو سے جب ٹینڈر پاس ہوتا ہے تو مکمل رقم دے دی جاتی ہے، اسطرح حکومتی معاملہ کلیئر ہے۔ لہذا اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے ایک کڑور پچاس لاکھ کے غبن میں کمیٹی کا ہی کو ئی شخص ملوث ہے، کمیٹی بھی اس حوالے سے تحقیقات کر رہی ہے، مگر تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ کمیٹی کی اس نااہلی کا خمیازہ متاثرینِ سانحہ عباس ٹاﺅن کو بھگتنا پڑ رہا ہے جنکی زندگی ۳ مارچ 2013کو تباہ ہوگئی تھی۔
دوسری طرف حکومت سند ھ اور وہ رہنماءجو سانحہ عباس ٹاﺅن کو کیش کرنے میں لگے تھے ست روئی کا شکا ر نظر آرہے ہیں ،ان رہنماﺅں میں ایم کیو ایم کے حیدر عباس رضوی، اور پیپلز پارٹی کی شہلا رضا شامل ہیں، عباس ٹاﺅن کے متاثرین کا یہی مطالبہ ہے کہ اس پروجیکٹ کو جلد از جلد مکمل کیا جائے کیونکہ ایک سال سے وہ در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، دوسری طرف ایک کروڑچالیس لاکھ روپے کی کثیر رقم کی گمشدگی کے حوالے سے بھی فوری تحقیقات کی جائیں اور اس رقم کو کسی کا گھر ،بنگلہ یا کار پر انویسٹ کرنے کی بجائے اس جگہ لگایا جائے جس مقصد کے لئے یہ رقم جاری کی گئی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button