انقلابیوں کو انقلاب کیوں برا لگ رہا ہے؟
شیعہ نیوز : اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ فاسد اور طاغوتی نظام کا حصہ بننا ملتِ پاکستان بالخصوص مظلوم ملتِ تشیع کے لئے راہِ نجات ہے یا نہیں؟ یہ وہی نظام ہے جسے ہم مختلف شکلوں میں 65 سے زائد سالوں سے آزما رہے ہیں اور نتیجہ سوائے ملتِ شریفِ پاکستان کی ذلت و خواری کے کچھ نہیں نکلا۔ پاکستان دن بدن زوال، نا امنی و ناپیداری کی جانب گامزن ہے اور یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جو کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔
آج اس فاسد طاغوتی نظام کی وجہ سے پاکستان دنیا میں عبرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن کچھ نادان یا منافق لوگ توجہ دلائے جانے کے باوجود ابھی بھی اسی فاسد نظام میں حصہ لینے اور اس کے کسی کونے کھدرے میں اپنی کوئی جگہ تلاش کرنے کو راہِ نجات سمجھتے ہیں۔ان کی ساری توجہ اس بات پر ہے کہ اس نظامِ طاغوت سے اکتائی ہوئی اور بیزار قوم کا پھر سے کسی طرح اسی فاسد نظام کے ساتھ سجھوتا کروا دیا جائے۔ بقول علامہ اقبال
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
اس دورِ پر فتن میں جو الٰہی شخصیات ایک واضح اور آزمودہ راہِ نجات یعنی نظامِ الٰہی و نظامِ ولایت کی طرف متوجہ کرتی ہیں، یہ لوگ انہی کے خلاف پروپیگنڈہ اور شخصیت کشی شروع کر دیتے ہیں اور ان کی باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں تاکہ تنقید کرنا آسان ہو سکے کیوں کہ واضح دلائل اور سیدھی بات میں مقابلے کی سکت نہیں رکھتے اور قرآنی و عقلی دلائل کے آگے عاجز ہو جاتے ہیں تومنفی ہتھکنڈوں پر اتر آتے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ جو لوگ اور تنظیمیں ہمیشہ نظامِ ولایت کا دم بھرتی تھیں آج انہیں نظامِ ولایت کی بات بری لگ رہی ہے اور جو لوگ انقلاب، انقلاب کے نعرے لگاتے تھے آج انہیں راہِ انقلاب بری لگ رہی ہے۔ یا تو ایسے افراد پہلے اپنی باتوں میں منافقت سے کام لیتے تے یا اب حقیقی راہ سے ہٹ چکے ہیں۔ قول و فعل میں اتنا واضح تضاد منافقت یا گمراہی میں سے کسی ایک چیز کی نشاندھی ضرور کرتا ہے۔ ہونا تو یہ چاھئے تھا کہ یہ لوگ ولایت کا پرچار کرتے اور اس نظامِ الٰہی کے نفاذ کی عملی جدوجہد کرتے لیکن افسوس کہ ساری محنت طاغوتی نظام کو درست ثابت کرنے پر ہو رہی ہے۔ اگر آُپ کو یہ راہ پسند نہیں تو واضح طور پر بتا دیں کہ ہمارا امام خمینی (رہ) یا انقلابِ اسلامی سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر یہ راہ پسند ہے تو جو لوگ اس راہ میں جدوجہد کر رہے ہیں ان کے دست و بازو بنیں۔ ایک طرف یہ کہنا کہ ہم انقلابی ہیں اور دوسری طرف انقلاب کے راستے میں کانٹے بچھانا ،سادہ لوح لوگوں کو بدظن کرنے کے لئے منفی پروپیگنڈہ کرنا اور اس راہ میں روڑے اٹکانا صریح منافقت ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انقلابِ اسلامی کی یہ مقدس تحریک ضرور کامیاب ہو گی کیوں کہ اس تحرک کے قائدین اور پیروان کو صرف خدا سے امید ہے اور جو خدا سے امید رکھتے ہیں خدا بھی ان کا بھرم ضرور رکھتا ہے اور انہیں نامراد نہیں لوٹاتا۔ یہ خدا کے سچے وعدے ہیں۔ جو لوگ خدا سے سوئے ظن رکھتے ہیں خدا ان کی مذمت کرتا ہے۔
وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّـهِ ظَنَّ السَّوْءِ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ۖ وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
اور تاکہ وہ (اللہ) منافق مَردوں اور منافق عورتوں، مشرک مَردوں اور مشرک عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے بارے میں برے گمان کرتے ہیں برائی کی گردش انہی پر ہے اللہ ان پر غضبناک ہے اور ان پر لعنت کی ہے اور ان کیلئے جہنم تیار کر رکھی ہے اور وہ بہت برا انجام ہے۔
سورۃ الفتح، آیت 6
جس طرح اس تحریک کا مقصد الٰہی ہے اسی طرح اس مقصد تک پہنچنے کا طریقہ اور روش بھی الٰہی ہے۔ شہید مطہری فرماتے ہیں کہ اگر مقصد حق ہو تو مقصد تک پہنچنے کا راستہ اور وسیلہ بھی حق ہونا چاھئے، یہی سیاستِ علوی(ع) ہے۔ امام علی (ع) اور دیگر شخصیات میں یہی فرق تھا کہ باقی افراد مقصد تک پہنچنےکے لئے کسی بھی روش کو درست سمجھتے تھے لیکن امام علی (ع) حصولِ حق بوسیلۂ حق کے قائل تھے۔
انقلابِ نبوی کی روش قرآن میں واضح طور پر درج ہے
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
وہ (اللہ) وہی ہے جس نے اُمّی قوم میں انہیں میں سے ایک رسول(ص) بھیجا جو ان کو اس (اللہ) کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاکیزہ بناتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ اس سے پہلے یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے۔
سورۃ جمعہ، آیت 2
انقلابِ نبوی ﷺ کی روش کے تین بنیادی ارکان ہیں: اللہ کی نشانیاں دکھانا، پاکیزہ کرنا اور کتاب و حکمت کی تعلیم دینا۔
امام خمینی (رہ) نے بھی اسی روش سے انقلاب برپا کیا اور انقلابِ اسلامی کی یہی واحد روش ہے۔ اس کے علاوہ ہر روش باطل ہے جیسے کہ امام خمینی ؒ کا ارشاد ہے کہ ایک دین میں دو متضاد راہیں نہیں ہو سکتیں۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ دو متوازی راستے حق تک جاتے ہوں، حق
تک صرف ایک راستہ صراطِ مستقیم جاتا ہے اور صراطِ مستقیم ایک سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ سب سے ضروری امر یہ ہے کہ ہم اس صراطِ مستقیم کی شناخت حاصل کریں تاکہ یہ دیکھ سکیں کون سی شخصیات اس صراط پر چل رہی ہیں۔ امیر المومنین ؑ کے فرمانِ مقدس کے مطابق حق کو پہچانو پھر صاحبانِ حق کو بھی پہچان لو گے۔ حق کا معیار شخصایت نہیں خود حق ہے اور اس شناخت کے بعد ہی اہلِ حق کی درست شناخت ممکمن ہے اور اہلِ حق کی پیروی و اتباع میں ہی نجات ہے۔
آج کل طاغوتی نظام کے تحت ہونے والے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے مسئلے کو عجیب و غریب رنگ سے اٹھایا جا رہا ہے جس میں بد دیانتی واضح ہے۔ فرزندِ خمینی اور نفسِ حسینی آقائی سید جواد نقوی (حفظہ اللہ) نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اس طاغوتی نظام میں ووٹ اس لئے نہیں ڈالنا کہ یہ عمل حرام ہے بلکہ آپ نے فرمایا کہ ممکن ہے بعض مجتھدین کے فتاویٰ بھی آ گئے ہوں کہ ووٹ ڈالنا جائز ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ موجودہ فاسد طاغوتی نظام راہِ نجات ہے یا نہیں؟ یعنی بحث کا اصل محور یہ تھا کہ راہِ نجات کیا ہے، یہ نہیں تھا کہ حرام و حلال کیا ہے۔ لیکن کچھ منافقین اور کچھ نادانوں نے اس بحث کو جان بوجھ کر غلط رخ دیا اور فتاویٰ اور حرام و حلال کے چکر میں پڑ گئے۔ اگر ناقدین و مخالفین کے پاس فرزندِ انقلاب سید جواد نقوی (حفظہ اللہ) کا کوئی ایک بیان موجود ہو جس میں انہوں نے ووٹ ڈالنے کو حرام قرار دیا ہو تو بندہ ناچیز کو ضرور ارسال کریں تاکہ میں اپنی تصحیح کر سکوں لیکن ایسی کوئی بات وجود ہی نہیں رکھتی اور جان بوجھ کر بات کو غلط رخ دیا گیا ہے۔
بہت سی چیزیں حلال ہیں اور بہت سی چیزوں کا ہم خود جواز نکال لیتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہی حلال، واجب بھی ہے یا یہی حلال ذریعہ نجات بھی ہے۔
اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ فرض کریں ایک شخص بیمار ہے اور وہ کسی ماہر طبیب سے رجوع کرنے کی بجائے خود سے تشخیص دیتا ہے کہ میرا علاج یہ ہے کہ میں دھی کھاؤں۔ اب وہ اپنے مجتھد کے پاس جاتا ہے کہ آیا دھی کھانا حلال ہے یا حرام تو مجتھد فرماتے ہیں کہ حلال ہے، پس یہ شخص کہتا ہے کہ میرا علاج ہی دھی کھانا ہے کیوں کہ اگر یہ علاج درست نہ ہوتا تو مجتھد کہہ دیتے کہ دھی کھانا حرام ہے۔ یہاں آپ مسئلے کو بخوبی سجھ گئے ہوں گے۔
اگر مجتھد سے ہی پوچھنا ہے تو ان کے سامنے یہ سوال رکھیں کہ میں بیمار ہوں اور میرے سامنے اس بیماری کے دو علاج ہیں: ایک آزمودہ اور شرطیہ ہے اور ایک میں نے خود سے تجویز کیا ہے جس کو میں بارہا آزما بھی چکا ہوں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تو کیا مناسب ہے کہ میں آزمودہ اور یقینی علاج چھوڑ کر ایسا علاج کروں جس میں ضرر اور نقصان ہے؟ جواب سے ضرور مطلع فرمائیے گا۔
ان لوگوں نے امت کی بیماری کا علاج طبیبِ امت سے نہیں پوچھا اور نہ ہی ایک مجرب اور آزمودہ علاج کو اپنایا بلکہ خود سے ایک علاج تجویز کیا جو پچھلے 65 سالوں سے کرتے آ رہے ہیں لیکن اس کا نتیجہ صرف یہ نکلا ہے کہ بیماری میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اور ہم نے فتویٰ بھی لے لیا کہ یہ علاج کرنا جائز ہے یا حرام، یہ نہیں پوچھا کہ اس مسئلے کا درست علاج کیا ہے؟
ہمارے سامنے ملتوں کی مشکلات کا ایک واضح حل موجود ہے جو کربلا ہے اور آج کے زمانے میں جس کا مصداق انقلابِ اسلامی ہے۔ انقلابِ اسلامی نے ملتِ شریفِ ایران کو جو شاہ کے دور میں ایک پسماندہ اور غلام امت تھی، ایسی امت میں بدل دیا جو آج عالمِ اسلام کی رہبر اور طاغتوں اور کفر وشرک کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی ہوئی ہے۔ انقلابِ اسلامی نے ملتِ ایران کو عزت و سربلندی عطا کی ہے۔ یہی امتوں کی نجات کا واضح اور آزمودہ راستہ ہے لیکن اس واضح راہِ حل کے ہوتے ہوئے ہم طاغوتی نظاموں کے ساتھ سمجھوتے کو ہی ذریعہِ نجات سمجھ رہے ہیں۔
ممکن ہے بہت سے معزز مجتھدین کرام کی نگاہ میں طاغوتی نظام میں ووٹ ڈالنا کچھ مجبوریوں کے تحت جائز ہو لیکن یہ کیسے ثابت ہوا کہ یہی راہِ نجات بھی ہے۔ مثلاً کہیں آگ لگی ہوئی ہو تو اس کے اوپر پانی ڈالنا جائز ہے، حرام نہیں ہے لیکن کچھ آگ ایسی بھی ہوتی ہیں جو پانی سے نہیں بجھتیں بلکہ خاص فوم اور کیمیکل سے بجھتی ہیں۔ لیکن آپ کہیں کہ نہیں میرے مجتھد نے کہا ہے کہ آگ پر پانی ڈالنا جائز ہے لہٰذا میں ہر صورت میں پانی ہی ڈالوں گا اور یہی راہِ نجات ہے۔ کیا یہ عقلی اور منطقی طریقہ ہے؟
کیا خدا کی ولایت کو چھوڑ کر شیاطین اور طاغتوں کی ولایت قبول کر لینے سے بھی کوئی قوم نجات یافتہ ہوئی ہے؟ کچھ روز قبل رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی مناسبت سے ایک اہم خطاب فرمایا جس کا اقتباس پیشِ خدمت ہے:
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انسانی زندگی کی راہ میں مشکلات اور چیلنجوں کو ایک قدرتی امر قراردیتے ہوئے فرمایا: عقل اور تدبیر کے حامل افراد مشکلات کو انسانی عزت و شرف تک پہنچنے اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لئے برداشت کرتے ہیں لیکن جاہل اور نادان انسان اللہ تعالی کی ولایت قبول کرنے کے بجائے شیاطین کی ولایت سے تمسک کرتے ہیں اور شیاطین کے سامنے میں ذلیل و خوار ہو جاتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں ایک قرآنی فریم ورک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قرآنی آیات کی روشنی میں وہ لوگ جو عزت تک پہنچنے کے لئے اللہ تع
الی کی ہدایت اور ولایت کے بجائے انسان اور اسلام کے دشمنوں اور شیاطین کی ولایت کا سہارا لیتے ہیں وہ سرانجام عزت تک نہیں پہنچ پائیں گے اور وہی شیاطین ان کا سپاس اور شکریہ بھی ادا نہں کریں گے۔
جب دو برے راستے اور ایک بہترین راستہ موجود ہو تو دو بروں میں سے کم برے کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ دونوں برے راستے چھوڑ کر بہترین کا انتخاب کرتے ہیں۔ پاکستان میں جو آگ لگی ہے وہ طاغوتی نظام کے بے اثر پانی سے نہیں بلکہ انقلابِ اسلامی کی پر تاثیر خنکی اور ٹھنڈک سے بجھے گی۔ انشاء اللہ۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہمیں ہدفِ حق کو روشِ حق سے حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
یہ کالم شیعہ نیوز کی جانب سے شائع کی جانے والی اس خبر کے جواب میں لکھا گیا ہے،لنک پر کلک کریں
رہبر معظم نے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کو حرام قرار دینے کے نظریئے کی نفی کرتے ہوئے اسے جائز قرار دیدیا
نوٹ: ادارے کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا لازم نہیں ہے۔