مضامین

تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے حملوں کی تردید 'جھوٹ کا پلندہ' قرار

شیعہ نیوز : تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے بے گناہ پاکستانیوں کے قتل کی بظاہر مذمت اور اس طرح کے حملوں میں ملوث ہونے سے انکار "جھوٹ کے پلندے” کے سوا کچھ نہیں۔

پاکستانی سوگواران 10 اپریل کو ان افراد کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں جو 9 اپریل کو اسلام آباد کی سبزی اور فروٹ منڈی میں ہونے والے بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ پاکستانی تجزیہ کاروں نے طالبان کی جانب سے اس طرح کے حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کو

پاکستانی سوگواران 10 اپریل کو ان افراد کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں جو 9 اپریل کو اسلام آباد کی سبزی اور فروٹ منڈی میں ہونے والے بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ پاکستانی تجزیہ کاروں نے طالبان کی جانب سے اس طرح کے حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کو

باچا خان ٹرسٹ تعلیمی فاؤنڈیشن سے منسلک خادم حسین نے کہا کہ طالبان خود کو محض پارسا ثابت کرنے اور اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کو بحال کرنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپنے جرائم سے حالیہ انکار طالبان کے طویل عرصے سے جاری رجحان کا حصہ ہے جس میں وہ اپنا اچھا تصور پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان نے متعدد حالیہ حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ ان میں اسلام آباد کی سبزی اور فروٹ منڈی میں 9 اپریل کو ہونے والا بم دھماکہ بھی شامل ہے جس میں 20 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

تحریک طالبان پاکستان کے ایک بیان میں ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اسلام آباد دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بے گناہ افراد کا قتل قانون شریعت کی خلاف ورزی ہے۔

تردید پاکستان میں وسیع پیمانے پر مسترد
تاہم پاکستانیوں کی اکثریت ان بیانات کی اصلیت سے آگاہ ہے۔

حسین نے کہا کہ سب کو پتا ہے کہ صرف تحریک طالبان پاکستان ہی اس طرح کے دہشت گردانہ حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت پھیلانا عسکریت پسندوں کے ایجنڈے میں سر فہرست ہے اور یہ کہ اسلام آباد بم دھماکے کے تمام شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ تحریک طالبان پاکستان کی ہی ہلاکت خیز کارروائی تھی۔

حسین نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان نے ماضی میں ایک فتوٰی جاری کیا تھا جس میں اس طرح کے حملوں کا جواز پیش کیا گیا تھا، مگر بعد میں اس نے ان کی مذمت شروع کر دی اور اب وہ اپنے ہی سابق فتوے کا تمسخر اڑا رہی ہے۔

عبد الولی خان یونیورسٹی میں ایک ماہر سیاسیات محمد ہارون نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی عوام طالبان کے اس دکھاوے کی اصلیت پہچانتے ہیں جس میں وہ بے گناہ افراد کے قتل کو شریعت سے متصادم قرار دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عوام طالبان کے جھوٹ پر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے ہی پاکستان میں دہشت گردی کا رجحان متعارف کرایا تھا۔

مقامی علماء بھی تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے بے گناہ افراد کے قتل سے فاصلہ رکھنے کی کوششوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

ایک پیش امام مولانا مشتاق احمد نے کہا کہ وہ جھوٹے اور عوام دشمن ہیں۔ طالبان کبھی بھی عسکریت پسندی نہیں چھوڑیں گے کیونکہ وہ خوف پھیلانے کے ذریعے طاقت کو پسند کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بربریت، وحشیانہ طرز عمل اور سنگ دلی طالبان کا طرہ امتیاز ہیں۔

طالبان کا حقیقی چہرہ
حسین نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کی تردید کو جھٹلانا آسان ہے کیونکہ انسانی جانوں کی پرواہ نہ کرنا عسکریت پسندوں کی طویل تاریخ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان نے اپنی طاقت منوانے کے لیے بازاروں، مساجد، عدالتوں اور سیاسی جلسوں میں ایسے سینکڑوں حملے کیے ہیں جن میں متعدد بے گناہ افراد لقمہ اجل بنے۔ انہوں نے پشاور میں اکتوبر 2009 میں ہونے والے ایک بم دھماکے کا ذکر کیا جس میں 1 سو 50 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ مرنے والوں میں بیشتر خواتین تھیں۔

دہشت گردی کے دشمنوں کا کہنا ہے کہ پشاور اور افغانستان میں ہونے والے بیشتر دہشت گردانہ حملوں میں تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ اور اسلامی تحریک برائے ازبکستان کے عسکریت پسند ملوث رہے ہیں۔ ان کے بقول اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون سا گروپ ان کی ذمہ داری قبول کرتا ہے کیونکہ معاشرے کو دہشت زدہ کرنا ہی ان سب کا مشترکہ ہدف ہے۔

حسین نے کہا کہ یہ مزید خوف پھیلانے اور سب کو مرعوب کرنے کی ایک سماجی نفسیاتی حکمت عملی ہے۔ انہوں نے عوامی حملوں میں ملوث ہونے سے تحریک طالبان پاکستان کے انکار کو "جھوٹ کا پلندہ” قرار دیا۔

ہارون نے کہا کہ دہشت گرد پہلے بھی دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کر چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس تردید کی کوئی ساکھ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان نے فوجیوں، پولیس، خواتین اور بچوں کو بلا وجہ قتل کیا ہے۔ بے گناہ افراد کا قتل طالبان کا ایجنڈا ہے۔

سینئر صحافی ایمل خان نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو میں کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کی گمراہ کن تردید نے معاشرے کو یہ سمجھنے میں کوئی مدد نہیں دی کہ آخر اس طرح کے حملے کیوں ہوتے ہیں۔

دہشت گردی کے
امور کے ماہر خان نے کہا کہ ایک بنیادی سوال جو بیشتر لوگ 2005 سے طالبان کے حملوں میں بے گناہ افراد کی ہلاکت کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، یہ ہے کہ آخر یہ حملے کیوں ہو رہے ہیں۔

انہوں نے عسکریت پسندوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے جرائم کا اعتراف کر لیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں عوام کے اس سوال کا جواب درکار ہے کہ آخر بے گناہ افراد کو کیوں قتل کیا گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button