عراق، دہشتگرد تکفیری گروہ داعش کا سربراہ ابوبکر البغدادی امریکی جیل سے کیوں آزاد ہوا؟
شیعہ نیوز (مانیٹرنگ ڈیسک) تکفیری دہشت گرد گروہ داعش یا آئی ایس آئی ایل کے موجودہ سربراہ ابوبکر البغدادی ایک زمانے میں عراق میں امریکی سیکورٹی فورسز کے زیر کنٹرول ایک جیل میں قید تھا۔ عراق میں داعش کی جانب سے بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ سرگرمیوں کے آغاز نے سب کے ذہنوں میں یہ بنیادی سوال پیدا کر دیا ہے کہ آخر اس قدر خطرناک دہشت گرد کو امریکی سیکورٹی فورسز نے جیل سے آزاد کیوں کیا؟ آخر دہشت گرد تکفیری گروہ کے اس خطرناک سرغنے اور امریکہ میں کس نوعیت کے خفیہ تعلقات قائم ہیں؟
ابودعا یا ابوبکر البغدادی ۲۰۰۵ء سے لے کر ۲۰۰۹ء تک عراق کے علاقے ام القصر کے نزدیک واقع بوکا جیل جس کا کنٹرول امریکی سیکورٹی فورسز کے ہاتھ میں تھا میں قید رہا ہے۔ اس خطرناک دہشت گرد کی گرفتاری سے قبل امریکہ نے اس کا نام بلیک لسٹ میں قرار دے رکھا تھا اور اس کے سر کی قیمت ۱۰ میلین ڈالر تعیین کر رکھی تھی۔
لندن سے شائع ہونے والے اخبار "ڈیلی میل” اپنی ایک رپورٹ میں لکھتا ہے:
"بوکا جیل کو ہمیشہ کیلئے بند کر دیئے جانے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں شدت پسند جن میں ابوبکر البغدادی بھی شامل تھا آزاد کر دیئے گئے۔ ابوبکر البغدادی اس وقت ایسے دہشت گردوں کی سربراہی کرنے میں مصروف ہیں جو اپنی بے رحمی، قتل و غارت اور وحشیانہ پن میں پوری دنیا میں مشہور ہو چکے ہیں اور ان کا مقصد شام کے خطے میں نظام خلافت کو رائج کرنا ہے۔ بعض معتبر رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابوبکر البغدادی یا ابودعا ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکہ کی فوجی یلغار سے پہلے القاعدہ کی رکنیت اختیار کر چکا تھا اور ۲۰۰۵ء میں امریکی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے پہلے عراق میں القاعدہ کے ایک انتہائی فعال اور سرگرم کمانڈر کے طور پر جانا جاتا تھا۔
ابودعا یا ابوبکر البغدادی کو ۲۰۰۵ء میں عراقی شہریوں کو ٹارچر اور قتل کرنے کے الزام میں عراق کے شہر القائم سے گرفتار کیا گیا۔ اس پر عراق کے کئی گھرانوں کے تمام افراد کو اغوا اور قتل کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔ ابوبکر البغدادی پر الزام تھا کہ وہ ان افراد کو اغوا کرنے کے بعد انہیں اعلانیہ طور پر موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا۔
ابوبکر البغدادی کے مجرمانہ اقدامات میں ۲۰۱۱ء میں بغداد کی ایک مسجد میں دہشت گردانہ بم دھماکہ اور ایک اہلسنت رکن پارلیمنٹ خالد الفھداوی کا قتل بھی شامل ہیں۔ اس وقت ابوبکر البغدادی ایک بھوت کی مانند عراق میں سرگرم عمل ہے اور خود اس کے اپنے ساتھی بھی بہت کم اس کو دیکھتے ہیں۔ میڈیا میں اس وقت اس کی صرف دو ہی تصاویر گردش کر رہی ہیں جن میں سے ایک امریکی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتاری سے قبل اور دوسری بوکا جیل کی ہے۔ اس فرد کی بوکا جیل سے آزادی جس کے سر کی قیمت دس میلین ڈالر تعیین کی گئی تھی ایک انتہائی افسوسناک امر ہے”۔
دوسری طرف ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی سینیٹر جان مک کین نے عراق کے موجودہ حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلوجہ کی گلیاں سیاہ رنگ کا پرچم لئے افراد سے بھر چکی ہیں اور یہ امر اوباما حکومت کے چہرے پر کلنک کا ٹیکا ہے۔ اوباما نے عراق میں امریکہ کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا ہے۔
اسی طرح واشنگٹن ریسرچ سنٹر کے مشرق وسطی سے متعلق شعبے کے سیاسی ماہر مائیکل نائٹ نے برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ابوبکر البغدادی کا بوکا جیل میں قید ہونا اس معنا میں تھا کہ وہ ایک انتہائی خطرناک مجرم سمجھا جاتا تھا۔
جن افراد نے ابوبکر البغدادی کو قریب سے دیکھا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک انتہائی پراسرار شخصیت کا مالک شخص ہے جسے عربی زبان کے کئی مقامی لہجوں پر مکمل عبور حاصل ہے۔ ابوبکر البغدادی ہمیشہ اپنے چہرے کو ڈھانپے رکھتا ہے تاکہ کوئی اسے پہچان نہ سکے۔ وہ صرف انتہائی قریبی اور بااعتماد ساتھیوں کے سامنے اپنے چہرے کو آشکار کرتا ہے۔ اسی طرح بعض افراد کا کہنا ہے کہ ابوبکر البغدادی دوسرے القاعدہ کمانڈرز کے مقابلے میں کہیں زیادہ مذہبی تعصب کا شکار شخص ہے۔