معذرت کے ساتھ
تحریر: علامہ صادق رضا تقوی
میں تو کراچی میں ھوں لیکن میرا دل تفتان کے شھدا کیلئے اشکِ خوں بہا رھا ھے !
میرا دل کراچی ایئر پورٹ کے کولڈ اسٹریج میں انتظامیہ کی غفلت سے جل کر جاں بحق ہو جانے والوں کیلئے نوحہ کناں ھے!
میرا دل سامرا،کاظمین اور نجف و کربلا میں آل نبی ص کے جگر پاروں کے مزارات کی حفاطت کیلئے مچل رھا ہے!
میرا دل کراچی میں آئے دن دھشت گردی، ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری اور سیاسی اور مذھبی منافقوں کی منافقت پر دکھ رھا ھے!
میرا دل اپنے تنظیمی،تحریکی، بیداری اور مجلسی انتہا پسندوں اور اپنے اپنے نظاموں کو منوانے کیلئے ایک دوسرے کے پیچھے ھاتھ دھو کر پڑ جانے والوں اور اصل دشمن کو ھماری شماتت و جگ ہنسائی کیلئے چھوڑ دینے والوں کی عقلوں پر دنگ ھے!
جھوٹی کہانیاں،
فیک آئی ڈیاں،
جعلی گروپ،
رکیک جملے،
کردار کُشی
اور
نجانے کیا کیا!!!
طالبان بھی ظالمان،خون آشام اور درندے!
حکومت تو پہلے ہی آلی کار تھی!
ایجنسیان بکی ہوئی!
پولیس بھتہ خور اور چائے پانی کے چکر میں!
فوجی کی پر اسرار خاموشی!
امریکہ اور اسرائیل کیا اب کیا گلہ شکوہ کریں جب ان کے ایجنٹ ھی اتنے سر گرم عمل ھوں،
ملت کے خیر خواہ، خادم، ناصر، قائد، فرزند آپ ہی خانقاہوں سے نکل کر ادا کریں رسم شبیری،
سر پر عزت سے جمے یہ سیاہ و سفید عمامے، یہ اسلامی جاہ و حشم، یہ مذھبی رعب دبدبہ،
تنظیمی بھائی ،
ماھر اور تجربہ کار سینئر
پیچھے رہ کر گروپ چلانے والے شاطر ذھن!
آغا صاحب،
علامہ،
قبلہ،
محترم،
مولانا،
حجۃ الاسلام
اور ھر دلعزیز آیت اللہ صاحب
اصل دشمن کو پہچانو!
ھم الیکشن اور ولایت کی اِس خود ساختہ جنگ سے کب باھر نکلیں گے؟
کہاں گئی برداشت، ادب احترام، تحمل، تسامح ، علم دوستی ؟!!
شخصیت پرستی بس شخصیت پرستی
چار سو شخصیت پرستی کا اندھیرا چھایا ھوا ھے جو عرب جاھلیت سے بھی زیادہ گمراہ کنندہ ھے!
رھبر رھبر کا نعرہ لگانے والے آج رھبر و ولایت کے نام پر منقسم !!
دیکھو تو سید علی آج تنہا کیوں ھے؟
کیا ایران میں ھاشمی، کروبی، بنی صدر، شیرازی، میر حسین موسوی ،خاتمی اور منتظری گمراہ ہو کر ”سید علی” کو تنہا کر سکتے ھیں تو کیا میں، تم اور آپ نہیں کر سکتے !!
میں، تم، آپ اور ھم سب قصور وار ھیں کہ اپنا حق ادا نہیں کیا۔
بقلم خود، ہوش و حواس کے ساتھ، اذان مغرب اور شب جمعہ کی دھلیز پر خدا اور اُس کی آخری حجت کو حاضر و ناظر جان کر بندہ حقیر سید صادق تقوی نے تحریر کیا ھے!!
اگر مثبت جواب نہ بن پڑے تو منفی بھی نہ دیں۔
اگر تعمیری الفاظ کی کمی پڑ جائے تو تخریبی الفاظ کو دفن کردیں۔
اگر دلوں کو جوڑ نہیں سکتے تو توڑئیے بھی نہیں۔
معذرت کے ساتھ