مضامینہفتہ کی اہم خبریں

امام محمد باقر(ع) کی شہادت اور ان کی زندگی کا مختصر جائزہ

سات ذی الحجہ کا دن خاندان رسالت اور دنیا کے ہر کونے میں رہنے والے شیعوں کے لیے حزن ملال اور مصائب کا سورج لے کر ابھرتا ہے کیونکہ یہی وہ دن ہے جس میں سلسلہ عصمت کی ساتوں کڑی اور رسول اکرم(ع) کے دنیا سے جانے کے بعد خدا کی طرف سے بشریت کی ہدایت کے لیے مقرر پانچوں امام حضرت محمد باقر علیہ السلام کو زہر کے ذریعے بے دردی سے شہید کیا گیا روضہ مبارک حضرت عباس(ع) کے تمام خدام اور الکفیل نیٹ ورک کے اراکین تمام محبان اہل بیت کو اس پر درد مصیبت پہ تعزیت پیش کرتے ہیں۔
اس موقع پر ہم اپنے قارئین اور ناظرین کی خدمت میں حضرت امام محمد باقر(ع) کے حوالے سے چند سطور پیش کرتے ہیں:
حضرت امام محمد باقر(ع) حضرت امام زین العابدین(ع) کے فرزند اور اہل تشیع کے پانچویں امام ہیں.
آپ کا نام "محمد” ہے اور لقب "باقر”ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو امام باقر علیہ السّلام اور امام محمد باقر علیہ السلام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
آپ کا سلسلہ نسب ماں اور باپ دونوں کی طرف حضرت رسول خدا(ص) تک جا پہنچتا ہے۔ آپ کے دادا سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السّلام ہیں جو حضرت رسول خدامحمدمصطفیٰ کے چھوٹے نواسے ہیں اور آپ کی والدہ جناب ام عبد اللہ فاطمہ علیہا السّلام حضرت امام حسن علیہ السّلام کی صاحبزادی ہیں جو حضرت رسول کے بڑے نواسے ہیں۔
ولادت با سعادت
آپ کی ولادت روز جمعہ یکم رجب 57ھ میں ہوئی . یہ وہ وقت تھا جب امام حسن علیہ السّلام کی وفات کو سات برس ہوچکے تھے اور امام حسین علیہ السّلام مدینہ میں خاموشی کی زندگی بسر کررہے تھے اور وقت کی رفتار تیزی سے واقعہ کربلا کے اسباب فراہم کررہی تھی . یہ زمانہ ال رسول علیہم السّلام اور شیعانِ اہل بیت علیہم السّلام کے لیے بے حد پرآشوب تھا . چُن چُن کر محبانِ علی علیہ السّلام گرفتار کیے جارہے تھے , تلوار کے گھاٹ اتارے جارہے تھے یا سولیوں پر چڑھائے جارہے تھے ۔
سانحہ کربلا
تین برس امام محمد باقر علیہ السّلام اپنے جد بزرگوار حضرت امام حسین علیہ السّلام کے زیرِسایہ رہے . جب آپ کاسن پورے تین سال کا ہوا تو امام حسین علیہ السّلام کے ہمراہ مدینہ سے سفر کرتے ہوئے کربلا پہنچے . یہ خالق کی منشاء کی ایک تکمیل تھی کہ وہ روز عاشور میدان ُ قربانی میں نہیں لائے گئے . ورنہ جب ان سے چھوٹے سن کا بچہ علی اصغر علیہ السّلام تیر ستم کا نشانہ ہوسکتا تھا تو امام محمد باقر علیہ السّلام کابھی قربان گاہ شہادت پر لاناممکن تھا . مگر سلسلہ امامت کادنیامیں قائم رہنا نظام کائنات کے برقرار رہنے کے لیے ضروری اور اہم تھا اور امام محمد باقر علیہ السّلام کربلا کے میدان اور کوفہ و شام کےبازاروں اور درباروں میں آل رسول پر ہونے والے مظالم کے گواہ اور عینی شاہد بنے اور انقلاب کربلا کی قربانیوں کو رائیگاں ہونے سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔
بعد از کربلا
واقعہ کربلا کے بعد امام زین العابدین علیہ السّلام کو مسلمانوں کی بد ترین بے وفائی اور حکمرانوں کے ظلم و ستم نے ظاہری طور پر بالکل الگ اور نہایت سکوت کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا لہذا آپ امامت کے فرائض کی ادائيگی کرتے ہوئے اہل دنیا کو حقیقی اسلام اور حقیقی اسلامی کی تعلیمات و عقائد سے آگاہ کرنے کے لیے کبھی محراب عبادت اور مناجات کا سہارا لیتے اور کبھی اپنے مظلوم بابا کاماتم کر کے دنیا والوں کو وارثانِ رسالت اور نمائندگانِ شریعت کی معرفت اور ان کی دین کے لیے قربانیوں کو جاننے کی دعوت دیتے.یہ وہی زمانہ تھا جس میں امام محمد باقر علیہ السّلام نے نشونما پائی .61 ھ سے 95ھ تک 34برس اپنے بابا کی زندگی کامطالعہ کرتے رہے اور اپنے فطری اور خداداد ذاتی کمالات کے ساتھ ان تعلیمات سے فائدہ اٹھاتے رہے جو انھیں اپنے والد ُ بزرگوار کی زندگی کے آئینہ میں برابر نظر آتی رہیں۔
امامت کی ذمہ داری
حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام کو 38 برس کی عمر میں اپنے والد بزرگوار حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کی شہادت کا صدمہ سہنا پڑااور اس کے ساتھ ہی امامت کی ذمہ داریاں بھی آپ ہی کےسپرد کر دی گئی۔ آپ رسول خدا کے پانچویں برحق جانشین اور امام قرار پائے۔
آپ کا دورامامت
یہ وہ زمانہ تھا جب بنی امیہ کی سلطنت اپنی مادری طاقت کے لحاظ سے بڑھاپے کی منزلوں سے گزر رہی تھی. بنی ہاشم پر ظلم وستم اورخصوصاً کربلا کے واقعہ نے کسی حد تک دنیا کی آنکھوں کو کھول دیا توابین کا جہاد، مختار اور ان کے ہمراہیوں کے خون حسین علیہ السّلام کا بدلہ لینے میں اقدامات اور نہ جانے کتنے ہی ایسے واقعات سامنے آ چکے تھے جن سے سلطنت شام کی بنیادیں ہل گئیں تھیں .
جس کے نتیجہ میں امام محمد باقر علیہ السّلام کے زمانہ امامت کو حکومت کے ظلم وتشدد کی گرفت سے کچھ آزادی نصیب ہوئی اور آپ کو خلق خدا کی اصلاح وہدایت کا کچھ زیادہ موقع مل گیا .
امام حسین علیہ السّلام کی عزاداری اور تبلیغ دین
سانحہ کربلا کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور اپنے بابا کی تمام زندگی کا امام مظلوم علیہ السّلام کے غم میں تنہا رونے کا مطالعہ کرچکنے کے بعد آپ کے دل میں یہ تکلیف دہ احساس ایک فطری امر تھا کہ جس غم ورنج، گریہ وزاری اور اہتمام کے ساتھ دنیا والوں کو امام حسین علیہ السّلام کا ماتم برپا کرنا چاہیے تھا ویسا دنیا والوں نے نہیں کیا۔ لہذا امام محمد باقر علیہ السّلام نے اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے مجالس عزاء کا سارا سال انعقاد فرماتے اور کمیت بن زید اسدی بڑے شاعروں کو بلا کر مراثیہائے امام حسین علیہ السّلام پڑھواتے اور سنتے اور ان مجالس میں لوگوں کو شرکت کی دعوت دیتے ۔
علمی مرجعیت اورعلوم اہل بیت(ع) کی اشاعت
آئمہ اہل بیت علیہم السّلام میں سے ہر ایک کے سینہ میں ایک ہی طرح کا دریا ئے علم موجزن تھا مگر ظلم وتشدد کی وجہ سے اس دریا کو پیاسوں کے سیراب کرنے کے لیے بہنے کا موقع نہیں دیا گیا . امام محمدباقر علیہ السّلام کے زمانہ میں جب ان پر تشدد کا شکنجہ ذرا ڈھیلا ہوا اور ظالموں کی ایک دوسرے سے حکومت کے حصول کے لیے رسہ کشی شروع ہوئی تو علوم اہلِبیت علیہم السّلام کے دریا سے کسی حد تک پیاسوں کو سیراب ہونے کا موقع مل گیا۔
اس علمی تبحر اور وسعت معلومات کے مظاہرے کے نتیجے میں آپ کا لقب باقر علیہ السّلام مشہور ہوا . اس لفظ کے معنی ہیں اندرونی باتوں کامظاہرہ کرنے والا چونکہ آپ نے اپنے اندر سے بہت سے پوشیدہ مطالب کو ظاہر کیا اس لیے تمام مسلمان آپ کو باقر علیہ السّلام کے نام سے یاد کرنے لگے . آپ سے علوم اہلبیت علیہ السّلام حاصل کرنے والوں کی بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی تھی جو آئمہ معصومین علیہ السّلام کے شیعہ نہ تھے جیسے زہری، امام اوزاعی ، عطاربن جریح، قاضی حفض بن غیاث وغیرہ ۔
حضرت باقر علیہ السّلام کے زمانہ میں علوم اہلبیت علیہ السّلام کے تحفظ کے لیے ان کے شاگردوں نے مختلف علوم وفنون اور مذہب کے شعبوں میں بہت سی کتب بھی تصنیف کیں اور اس طرح امام محمدباقر علیہ السّلام کے ذریعے اسلامی دنیا میں علم ومذہب کی بے پناہ ترقی ہوئی۔
اخلاق و اوصاف
آپ کے اخلاق وہ تھے کہ دشمن بھی قائل تھے چنانچہ ایک شخص اہل شام میں سے مدینہ میں قیام رکھتا تھا اور اکثر امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس آ کر بیٹھا کرتا تھا- اس کا بیان تھا کہ مجھے اس گھرانے سے ہرگز کوئی خلوص و محبت نہیں مگر آپ کے اخلاق کی کشش اور فصاحت وہ ہے جس کی وجہ سے میں آپ کے پاس آنے اور بیٹھنے پر مجبور ہوں-
امورِ سلطنت میں مشورہ
جس طرح امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے مشکل موقعوں پر حکومت وقت کو اپنے مشورے کے ذریعے مشکل سے نکالنے سے گریز نہیں کیا اسی طرح تمام آئمہ اطہار علیہم السّلام نے بھی اپنے اپنے زمانہ کے بادشاہوں کے ساتھ یہی طرزِ عمل اختیار کیا- چنانچہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسی صورت پیش آئی- واقعہ یہ تھا کہ حکومتِ اسلام کی طرف سے اس وقت تک کوئی خاص سکہ نہیں بنایا گیا تھا- بلکہ رومی سلطنت کے سکے اسلامی سلطنت میں بھی رائج تھے- ولید بن عبدالملک کے زمانہ میں سلطنت شام اور سلطان روم کے درمیان اختلافات پیدا ہو گیا- رومی سلطنت نے یہ ارادہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے سکوں پر پیغمبر اسلام(ص) کے خلاف کچھ الفاظ درج کرا دے گی اس پر مسلمانوں میں بڑی بے چینی پیدا ہو گئی- امام محمد باقر علیہ السلام نے حکومت کو یہ رائے دی کہ مسلمان کو خود اپنا سکہ بنانا چاہیئے جس میں ایک طرف لاالٰہ الااللّٰہ اور دوسری طرف محمد رسول اللّٰہ نقش ہو- امام علیہ السّلام کی اس تجویز کے سامنے سر تسلیم خم کیا گیا اور پہلی مرتبہ اسلامی سکہ تیار کیا گیا-
سلطنت بنی امیہ کی طرف سے ایذاء رسانیاں
باوجودیکہ امام محمد باقر علیہ السلام حکومتی معاملات میں کوئی دخل نہ دیتے تھے اور دخل دیا بھی تو سلطنت کی خواہش پر وقارِ اسلامی کے برقرار رکھنے کے ليے- مگر آپ کی خاموش زندگی اور خالص علمی اور روحانی مرجعیت بھی سلطنت وقت کو گوارا نہ تھی چنانچہ ہشام بن عبدالملک نے مدینہ کے حاکم کو خط لکھا کہ امام باقر(ع) کو ان کے فرزند امام جعفر صادق(ع) کے ہمراہ دمشق بھیج دیا جائے- اس کو منظور یہ تھا کہ حضرت کی عزت و وقار کو اپنے خیال میں دھچکا پہنچائے چنانچہ جب یہ حضرات علیہ السّلام دمشق پہنچے تو تین دن تک ہشام نے ملاقات کا موقع نہیں دیا- چوتھے دن دربار میں بلا بھیجا- ایک ایسے موقع پر کہ جب وہ تخت شاہی پر بیٹھا تھا وسط دربار میں تیراندازی کا مقابلہ جاری تھا اور رؤساء سلطنت اس کے سامنے شرط باندھ کر تیراندازی کر رہے تھے امام علیہ السلام کے پہنچنے پر انتہائی جراَت اور جسارت کے ساتھ اس نے خواہش کی کہ آپ بھی ان لوگوں کے ہمراہ تیر اندازی کریں – ہر چند حضرت باقر علیہ السّلام نے اس بات کو قبول نہ کیا مگر بے انتہا اصرار کی وجہ سے امام باقر علیہ السلام کو تیر اندازی کے لیے آنا ہی پڑا- ہشام یہ سمجھتا تھا کہ آل محمد طویل مدت سے گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ان کو جنگ کے فنون سے کیا واسطہ, اور اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو ہنسنے کا موقع ملے- مگر جب مجبور ہو کر حضرت نے تیر و کمان ہاتھ میں لیا اور پے در پے چند تیر ہدف کے بالکل درمیانی نقطہ پر اس طرح سے مارے پہلا تیر عین وسط میں جا لگا اور اس کے بعد والا ہر تیر پہلے سے پیوست تیر کو چیرتا ہوا ہدف کے عین وسط میں پیوست ہو جاتا۔ ایک ہی نشانے پر اس انداز میں لگتا ہو ا پہلی مرتبہ دیکھ کر مجمع تعجب اور حیرت میں غرق ہو گیا اور ہر طرف سے تعریفیں ہونے لگیں- ہشام کو اپنے طرزِ عمل پر پشیمان ہونا پڑا- اس کے بعد اس کو یہ احساس ہوا کہ امام علیہ السلام کا دمشق میں قیام کہیں عام خلقت کے دل میں اہل بیت علیہ السّلام کی عظمت قائم کر دینے کا سبب نہ ہو- اس لیے اس نے آپ کو واپس مدینہ جانے کی اجازت دے دی مگر دل میں حضرت علیہ السّلام کے ساتھ عداوت میں اور اضافہ ہو گیا۔
شہادت
سلطنتِ شام کو جتنا حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام کی جلالت اور بزرگی کا اندازہ زیادہ ہوتا گیا اتنا ہی آپ کا وجود ان کے ليے ناقابل برداشت محسوس ہوتا رہا- آخر آپ کو اس خاموش زہر کے حربے سے جو اکثر سلطنت بنی امیہ کی طرف سے کام میں لایا جاتا رہا تھا شہید کرنے کی تدبیر کر لی گئی- وہ ایک زین کا تحفہ تھا جس میں خاص تدبیروں سے زہر پوشیدہ کیا گیا تھا اور جب حضرت اس زین پر سوار ہوئے تو زہر جسم میں سرایت کر گیا۔ چند روز کرب و تکلیف میں بستر بیمار پر گزرے اور آخرت سات ذی الحجہ 114ہجری کو57 برس کی عمر میں شہادت پائی۔
جنت البقیع میں حضرت امام حسن علیہ السّلام اور امام زین العابدین علیہ السّلام کی قبور کے جوار میں حضرت امام باقر علیہ السّلام بھی دفن کئے گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button