مضامین

سعودی عرب میں عوامی احتجاج کی نئی لہر کا آغاز

گذشتہ چند ہفتوں سے سعودی عرب میں عوامی احتجاج کی ایک نئی لہر جنم لے چکی ہے اور روز بروز زور پکڑتی جا رہی ہے۔ یہ عوامی احتجاج سڑکوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر سعودی صارفین نے "بے روزگار افراد کا اجتماع” کا ہیش ٹیگ استعمال کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ سعودی عرب امیر ترین عرب ملک ہونے اور دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر کا مالک ہونے کے باوجود اپنی عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ نہیں دے رہا اور آج بڑی تعداد میں بے روزگار جوان پائے جاتے ہیں۔ احتجاج کرنے والے افراد نے یہ مسئلہ بھی اٹھایا کہ حکومت کی جانب سے اقتصادی اصلاحات کا بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے۔

یاد رہے سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دو سال پہلے ملک میں بڑی سطح پر اقتصادی اصلاحات انجام دینے کا اعلان کیا تھا۔ سعودی ولیعہد نے دعوی کیا تھا کہ ان اصلاحات کے بعد ملک میں روزگار کے وسیع مواقع میسر آئیں گے جبکہ تیل کے علاوہ دیگر مصنوعات کی پیداوار میں بھی اضافہ ہو گا۔ سوشل میڈیا پر احتجاجی مہم چلانے والوں کی جانب سے "بے روزگاروں کی انجمن” والا ہیش ٹیک ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے۔ ماضی میں بھی اگست 2020ء میں یہ ہیش ٹیک ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے۔ سعودی عرب میں اعداد و شمار کے مرکزی ادارے نے گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اپنی جاری کردہ رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ گذشتہ برس اپریل، مئی اور جون کے مہینوں میں ملک میں بے روزگاری کی شرح 15.4 فیصد رہی ہے۔

تازہ ترین رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے 40 لاکھ شہری غربت کی لائن سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 20 لاکھ افراد کافی حد تک تنخواہ وصول نہیں کرتے۔ 20 لاکھ شہری ایسے ہیں جو ڈگری رکھنے کے باوجود بے روزگار ہیں۔ سعودی عرب کے مالی قرضے 854 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ دوسری طرف سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نہ صرف عوامی مطالبات کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے بلکہ حالیہ دنوں میں 5400 یورو قیمت والے لباس کے ساتھ میڈیا کے سامنے ظاہر ہوئے ہیں۔ ان کے اس اقدام نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور عوام مزید مشتعل ہو گئی ہے۔ ملک میں جاری اقتصادی بحران کی بدولت پرائیویٹ کمپنیاں اپنا عملہ کم کر رہی ہیں اور یوں بے روزگاری کی شرح میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

عالمی سطح پر تیل کی قیمت میں کمی، یمن جنگ جاری رہنا اور کرونا وائرس کا پھیلاو وہ اسباب ہیں جن کے باعث سعودی عرب میں اقتصادی بحران کی شدت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ مزید برآں، سعودی شہزادوں کی فضول خرچیوں اور عیاشی نے بھی ملک کی معیشت پر بہت زیادہ بوجھ ڈال رکھا ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب کے صوبہ القصیم کے شہر "بریدہ” میں اقتصادی مشکلات سے پریشان عوام سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنا شروع ہو گئی۔ مظاہرین حکومت سے عوام کو درپیش معیشتی مسائل حل کرنے اور بے روزگاری ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس مظاہرے میں سینکڑوں کی تعداد میں جوان شامل تھے۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا باعث بن گیا۔

کرونا وائرس کے پھیلاو کے باعث حجاج کرام کی آمدورفت پر پابندی عائد کی گئی ہے جس کی وجہ سے سعودی عرب کو حاصل ہونے والے زرمبادلہ کی مقدار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی طرح عالمی سطح پر ایران سے مقابلہ کرنے کیلئے تیل کی قیمت میں کمی لانے کی پالیسی بھی سعودی عرب کی تیل کی آمدن میں کمی کا باعث بنی ہے۔ لہذا سعودی حکومت نے اقتصادی محنت کی پالیسی اپنا رکھی ہے جس کے نتیجے میں عوام پر شدید مالی دباو آ رہا ہے۔ 2020ء سے ٹیکسوں کی شرح 5 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کر دی گئی ہے۔ اسی طرح جون سے عوام کو ملنے والی فلاحی رقم بھی روک دی گئی ہے۔ سعودی عرب کی تاریخ میں ٹیکسوں کی شرح میں تین گنا اضافہ بے سابقہ ہے اور عوام کی شدید پریشانی کا باعث بنا ہے۔

سعودی عرب میں عوامی احتجاج اس لحاظ سے اہم قرار دیا جا رہا ہے کہ اس ملک میں ہمیشہ سے "فلاح و بہبود کے بدلے اطاعت” کی روایت حکمفرما رہی ہے۔ موجودہ سعودی ولیعہد شہزادہ بن سلمان کی احمقانہ پالیسیوں کے باعث عالمی سطح پر سعودی عرب کے وقار اور حیثیت کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ گذشتہ 6 برس سے سعودی عرب نے یمن کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے اور اب تک اپنے اہداف حاصل کرنے میں اسے شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دوسری طرف اقتصادی بحران اور عوام کے خلاف طاقت کے کھلے استعمال کے باعث عوام میں شدید غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے۔ اس تناظر میں سول نافرمانی کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے آمرانہ طریقہ کار اختیار کر رکھا ہے اور حالیہ عوامی مظاہروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب یہ ہتھکنڈہ بھی ناکام ہو چکا ہے۔
تحریر: علی احمدی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button