چترال حملے سے افغان حکومت کا تعلق نہیں: نگران وزیرخارجہ
نگران وزیرخارجہ جلیل عباس جیلانی نے رواں ہفتے خیبرپختونخوا کے ضلع چترال میں ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کو ایک ’آئسولیٹڈ واقعہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے اس کا افغان حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
نگران وزیرخارجہ جلیل عباس جیلانی نے افغانستان کی سرحد سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی سے متعلق سوال پر ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ’یہ ایک آئسولیٹڈ واقعہ ہے اور ہمارا نہیں خیال ہے اس کے لیے افغان حکومت کی منظوری تھی‘۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف کوششوں کے لیے افغانستان کی حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات مثبت ہیں۔
اس سے قبل ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا تھا کہ طورخم بارڈر کے حوالے سے پاکستان کو تشویش ہے اور اس حوالے سے افغان حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا تھا کہ ہمیں تشویش ہے کہ جو اسلحہ موجود ہے وہ پاکستان سمیت خطے کے لیے خطرہ ہے کیونکہ جو اسلحہ افغانستان میں چھوڑا گیا تھا وہ اب دہشت گرد گروپس کے ہاتھ لگ چکا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان امن اور سلامتی کا بارڈر ہونا چاہیے، پاکستان نہیں چاہتا کہ کاروباری یا عام لوگوں کے لیے بارڈر پر مسائل پیدا کیے جائیں۔
ترجمان نے کہا کہ اس حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے اور افغانستان کے شہریوں کے لیے درجنوں کے تعداد میں ویزے جاری کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کے لیے پاکستان کی پالیسی برسوں پرانی ہے، پاکستان نے ہمیشہ افغان مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھولے ہیں۔
خیال رہے کہ دو روز قبل چترال کے علاقے کیلاش میں دہشت گردوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں 4 اہلکار شہید ہوگئے تھے جبکہ جوابی کارروائی میں 12 دہشت گرد بھی مارے گئے تھے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے حملے کے حوالے سے جاری بیان میں کہا تھا کہ ’جدید ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں کے ایک بڑے گروپ نے ضلع چترال کے علاقے کیلاش میں افغانستان کی سرحد کے قریب قائم فوج کی دو چوکیوں پر حملہ کیا‘۔
آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ افغانستان کے صوبے نورستان اور کنڑ کے علاقوں گواردش، پیتگال، بارغ متل اور بتاش میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت اور سرگرمیوں کا پہلے ہی سراغ لگایا گیا اور افغانستان کی عبوری حکومت کو بروقت آگاہ کردیا گیا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ کہ افغانستان کی عبوری حکومت سے توقع ہے کہ وہ اپنے وعدے پورے کرے گی اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
چترال واقعے کے بعد ضلع خیبر میں طورخم کے مقام پر پاکستان اور افغانستان کی سرحدی فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکار سمیت 2 افراد زخمی ہو گئے تھے جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مصروف ترین تجارتی گزرگاہ کو بند کردیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ فائرنگ تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہی اور پاکستانی حکام نے کہا تھا کہ فائرنگ کا آغاز افغانستان کی طرف سے کیا گیا تھا۔
دوسری جانب افغان طالبان حکومت نے پاکستان پر واقعے کا الزام عائد کیا، افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگرہار میں انفارمیشن اینڈ کلچر ڈائریکٹوریٹ کے ایک عہدیدار قریشی بدلون نے کہا کہ پاکستانی فورسز نے افغان عہدیداروں پر اس وقت حملہ کیا جب وہ ایکسیویٹر کے ذریعے اپنی پرانی چوکی دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ حملے کے نتیجے میں جانی نقصان ہوا لیکن تاحال صحیح اعداد و شمار معلوم نہیں ہیں۔
طالبان حکومت کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے کہا کہ جھڑپ کی وجوہات اور اس طرح کے واقعات روکنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔