عمران خان رہائی کے بعد پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس میں سپریم کورٹ کے مہمان بن گئے
شیعہ نیوز: سپریم کورٹ کے حکم پر نیب نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کو رہا کردیا جس کے بعد پولیس نے انہیں عدالتِ عظمیٰ کے مہمان کے طور پر پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس پہنچا دیا، چیف جسٹس نے عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے آج رجوع کرنے کا حکم دیا جبکہ ہائیکورٹ سے استدعا کی ہے کہ وہ کیس کی دوبارہ سماعت کر کے فیصلہ جاری کرے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق فواد چوہدری کی جانب سے دائر درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ نے سماعت کی اور چیئرمین پی ٹی آئی کی نیب کے ہاتھوں القادر ٹرسٹ میں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا۔سپریم کورٹ نے گرفتاری غیر قانونی قرار دے کر عمران خان کو فوری طور پر رہا کرکے پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس منتقل کرنے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کو کیس کی سماعت صبح گیارہ بجے مقرر کرکے فیصلہ جاری کرنے جبکہ عمران خان کو بھی متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔
سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ
سپریم کورٹ نے سماعت کا 7 نکات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کو گیارہ بجے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کیا جائے، نیب اور اسلام آباد پولیس عمران خان کی سیکیورٹی کیلئے فول پروف انتظامات کریں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ چیف جسٹس کے سامنے معاملہ رکھیں، ہائیکورٹ میں پیشی تک عمران خان پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس میں رہیں گے، عمران خان کی دس مہمانوں سے ملاقات کروائی جا سکتی ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم نیب کی القادر ٹرسٹ کیس میں تحقیقات پر اثرانداز نہیں ہوگا، سپریم کورٹ نے نیب کے القادر ٹرسٹ کیس میں وارنٹ پر عملدرآند کے طریقہ کار کو غیر قانونی قراردے دیا۔
عمران خان سخت سیکیورٹی میں سپریم کورٹ پہنچے
عدالت نے عمران خان کو پیش کرنے کے لیے ساڑھے چار بجے کا وقت دیا تھا تاہم پی ٹی آئی کے چیئرمین کو ایک گھنٹے سے زائد تاخیر کے بعد عدالت میں پہنچایا گیا۔
اسلام آباد پولیس نے سخت سیکیورٹی میں عمران خان کو لے کر عدالت پہنچی اور اُن کی گاڑی کو ججز گیٹ سے داخل کروایا، چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ پولیس، رینجرز، ایلیٹ کمانڈوز کی 13 گاڑیاں تھی۔
عمران خان نے پیشی کے موقع پر سیاہ رنگ کا چشمہ لگایا ہوا تھا، احاطہ عدالت میں داخل ہونے کے بعد وہ خود پیدل چل کر کورٹ روم پہنچے اور صحافیوں کی جانب سے دوران حراست تشدد کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔
عمران خان کو آئی جی اسلام آباد پولیس کی سربراہی میں سکیورٹی حکام عدالت لائے۔
کمرہ عدالت میں چیف جسٹس کا عمران خان کا مکالمہ
عمران خان کے کمرہ عدالت میں داخل ہوتے ہی چیف جسٹس نے ’ویلکم خان صاحب، آپ کو دیکھ کر اچھا لگا‘ ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو کچھ خدشات ہیں، آپ کوپرتشدد مظاہروں کا علم ہوا ہوگا، یہ شائد سیاسی عمل کا حصہ ہے لیکن عمل بحال کرنا ہوگا، امن بحال ہوگا تو آئینی مشینری کام کر سکے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی خواہش ہے کہ آپ پرتشدد مظاہروں کو مذمت کریں۔
سپریم کورٹ نے عمران خان کو جمعے کی صبح گیارہ بجے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’ذوالفقار علی بھٹو کو بیرون ملک جانے کی پُرکشش پیش کش ہوئی جسے انہوں نے مسترد کیا، آصف زرداری نے بھی پر تشدد مظاہرے ختم کروائے، بے نظیر بھٹو کی گرفتاری کے بعد ملک میں پُرتشدد مظاہرے نہیں ہوئے‘۔
’سپورٹرز پُرامن رہنے کی ہدایت کریں‘
عمران خان نے کہا کہ گرفتاری کے بعد مجھ سے میرا موبائل لے لیا تھا جس کے بعد مجھے کسی بھی واقعے کا کوئی علم نہیں تھا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بندوبست کر رہے ہیں آپ کوساری خبریں ملیں گی، ہم فیصلہ واپس لے رہے ہیں، فکر نہ کریں، بس کسی سرکاری یا نجی املاک کو نقصان نہ پہنچے کیونکہ ہم غریب ملک ہیں،نقصان سب کا ہوتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے سپورٹرز سے کہنا ہے کہ پر امن رہنا ہے۔
وارنٹ قانونی تھے یا نہیں گرفتاری درست نہیں ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ امن ہوتوگا ہی تو ریاست چل سکے گی۔ یہ ذمہ داری ہر سیاستدان کی ہے کہ وہ اپنے کارکنان کو پُرامن رہنے کی تلقین کرے، الزام ہے کہ آپ کے ورکرز نے سڑکوں پر آکر یہ ماحول بنایا، آپ اپنا مذمتی بیان عدالت میں ہی دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے عدالت میں سرینڈر کیا تھا، سرینڈرکرنے والے ہر شہری کا حق ہے اسے انصاف تک رسائی ملے، وارنٹ قانونی تھے یا نہیں، گرفتاری درست نہیں، اب سارا عمل واپس ہو گا جہاں آپ بائیو میٹرک کروا رہے تھے اور ہائیکورٹ جو بھی حکم دے گی آپ اس کے پابند ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ محترمہ بینظیر کی شہادت ہوئی مگر کسی نے پرتشدد مظاہرے نہیں کیے۔
عمران خان سپریم کورٹ کے مہمان ہوں گے، چیف جسٹس
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ عمران خان آج سپریم کورٹ کے مہمان ہوں گے، سیکیورٹی کے مدنظر عمران خان کو آج پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس میں رکھا جائے گا جہاں وہ جن شخصیات سے چاہیں مل سکتے ہیں، عمران خان کو کل صبح گیارہ بجے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کیا جائے گا۔
عمران خان کے دوست اور فیملی ممبران بھی رات کو قیام کرسکتے ہیں، چیف جسٹس
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان چاہیں تو ان کے ساتھ دوست یا فیملی ممبران رات کو قیام بھی کر سکتے ہیں، عدالتوں کی حدود سے کسی کو بھی گرفتار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، عدالتوں کی حدود سے کسی کو بھی گرفتار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، سیکیورٹی کے افراد رجسٹرار کی اجازت سے ہی عدالتوں میں داخل ہو سکیں گے، عمران خان کی خواہش کے برعکس ملنے والوں کو عمران خان سے اجازت لینا ہوگی۔
مخالفین سے بات چیف کریں اور ملک کی کشتی کو آگے بڑھائیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ممکن ہے آپ مخالفین کو پسند نہ کرتے ہوں مگر ان سے بات کریں، 23 کروڑ لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ ہمارے سیاستدان ملک کی کشتی کو آگے بڑھائیں، آپ اپنے مخالفین سے ڈائیلاگ کریں، اس سے معاشرے میں اطمینان آئے گا، دونوں اطراف کا مؤقف ناقابل حد تک یکسو ہوگیا ہے۔
عمران خان کی بنگی گالہ جانے کی استدعا
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دوران سماعت متعدد بار سپریم کورٹ کے ججز سے بنی گالہ کے گھر جانے کی استدعا کی اور کہا کہ مجھے گھر جانے دیا جائے۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ماحول کی ضرورت ہے کہ سکیورٹی کے انتظامات کئے جائیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس سیکیورٹی کے اقدامات کر سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: عمران خان اور مسرت جمشید چیمہ کی آڈیو گفتگو لیک
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت ہائیکورٹ میں زیر التواء تصور ہو گئی۔
عمران خان کو پولیس لائنز پہنچا دیا گیا
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد عمران خان کو سخت سیکیورٹی میں پولیس لائنز لایا گیا، جہاں سیکیورٹی کے لیے ایف سی اور پولیس کی بھاری نفری کو تعینات کیا گیا۔
پولیس لائنز میں قیام کے دوران عمران خان کے ساتھ 10 سے بارہ لوگ ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق شبلی فراز بھی رات کو چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ قیام کریں گے۔
اسلام آباد پولیس کو عمران خان کے وکیل سے رابطہ
پولیس لائنز پہنچانے کے بعد اسلام آباد پولیس کا عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ سے رابطہ کر کے انہیں عمران خان کا پیغام پہنچایا اور چیئرمین پی ٹی آئی کی خواہش پر انہیں ملاقات کے لیے بلالیا۔
عمران خان نے وکیل کے علاوہ اہلیہ بشری بیگم اور دو ملازمین کے نام بھی دیئے ہیں جو اُن کے ساتھ پولیس لائنز میں رات کو قیام کریں گے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر عمران خان کو پولیس لائنز منتقل کردیا گیا ہے جہاں عدالتی حکم کے مطابق دوست اور رشتے دار ملاقات کرنے آرہے ہیں۔
پولیس لائنز پہنچنے کے بعد عمران خان نے چار لوگوں سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی جن میں وکیل، بشریٰ بی بی اور گھر کے دو ملازم تھے۔
پولیس نے عمران خان کا پیغام وکیل تک پہنچایا جس کے بعد وہ اپنے بھائی کے ہمراہ ملاقات کیلیے پولیس لائنز پہنچے۔ بعد ازاں پی ٹی آئی رہنما فیصل چوہدری، سیف اللہ نیازی سمیت دیگر عہدیدار بھی ملاقات کے لیے پہنچے۔
اس کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی عمران خان سے ملاقات کے لیے پولیس لائنز پہنچے۔
پی ٹی آئی وکلا اور حامیوں کا جشن
عدالت کی جانب سے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے پر عمران خان کے وکلا اور حامیوں نے عدالت میں شدید نعرے بازی کی جبکہ کارکنان نے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کی جس پر پولیس نے پیش قدمی کو روک کر انہیں پیچھے دھکیل دیا۔
علاوہ ازیں زمان پارک، لاہور سمیت پنجاب کے تمام بڑے شہروں، پشاور، مردان، کراچی سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بھی کارکنان نے جشن منایا اور ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے۔
سماعت کا احوال
قبل ازیں عمران خان کے وکیل حامد خان نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ کہا کہ عمران خان نیب کیس میں ضمانت کروانے کے لیے ہائی کورٹ آئے تھے، عمران خان بائیو میٹرک کروا رہے تھے کہ رینجرز نے دھاوا بول دیا، دروازہ اور کھڑکیاں توڑ کر عمران خان کو گرفتار کیا گیا جب کہ بایو میٹرک کروانا عدالتی عمل کا حصہ ہے، عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور گرفتاری پر تشدد ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق جو مقدمہ مقرر تھا وہ شاید کوئی اور تھا، عدالتی حکم کے مطابق درخواست ضمانت دائر ہوئی تھی لیکن مقرر نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا بایو میٹرک سے پہلے درخواست دائر ہو جاتی ہے؟ اس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ بایو میٹرک کے بغیر درخواست دائر نہیں ہوسکتی۔جسٹس اطہر نے کہا کہ پہلی بات یہ ہے کہ عمران خان احاطہ عدالت میں داخل ہوچکے تھے، ایک مقدمہ میں عدالت بلایا تھا، دوسرا دائر ہو رہا تھا، کیا انصاف تک رسائی کے حق کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ یہی سوال ہے کہ کسی کو انصاف کے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟ کیا مناسب نہ ہوتا نیب، رجسٹرار سے اجازت لیتا؟ نیب نے قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا؟
عمران خان کی جانب سے گرفتاری سے متعلق اضافی دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کروا دی گئی ہیں۔ عدالت عظمیٰ میں نیب کال اپ نوٹس، ڈی جی نیب کو لکھے خط کی کاپی جمع کروائی گئی ہے۔ علاوہ ازیں چیئرمین نیب کے خلاف دائر رٹ پٹیشن اور بیان حلفی بھی عدالت میں جمع کروا دیا گیا ہے۔
عمران خان کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مجھے بائیومیٹرک تصدیق کے دوران غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔ میرے وکلا گوہر علی اور علی بخاری کے ساتھ دورانِ گرفتاری بد تمیزی کی گئی۔ میرے وکلا کی آنکھوں پر زہریلا اسپرے پھینکا گیا۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ انصاف کے تقاضوں کے لیے اضافی دستاویز کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معاملہ عدلیہ کے احترام کا ہے نیب نے ایک ملزم کو سپریم کورٹ کی پارکنگ سے گرفتار کیا تھا جس پر عدالت نے گرفتاری واپس کرا کر نیب کے خلاف کارروائی کی تھی، نیب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں ہوگی، نیب کی یقین دہانی سے 9 افسران توہین عدالت سے بچ گئے تھے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمران خان کو کتنے لوگوں نے گرفتار کیا؟ جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ 80 سے 100 لوگوں نے گرفتار کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 100 لوگوں کے عدالتی احاطے میں داخلے سے خوف پھیل جاتا ہے، رینجرز اہل کار عدالتی احاطے میں آئے تو احترام کا کہا گیا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت میں سرنڈر کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے تو کوئی عدلیہ پر اعتماد کیوں کرے گا؟ سپریم کورٹ سے کیا چاہیے؟ جس پر عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ عمران خان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وارنٹ کی قانونی حیثیت کا نہیں اس کی تعمیل جائزہ لیں گے۔ جسٹس اطہر نے کہا کہ عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے کے عمل کو سبوتاژ نہیں کیا جاسکتا۔
سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمران خان پر حملہ ہوا اور سیکیورٹی بھی واپس لے لی گئی حالاں کہ عمران خان دہشت گردوں کے ریڈار پر تھے اس پر جسٹس اطہر نے کہا کہ عدالت صرف انصاف تک رسائی کے حق کا جائزہ لے گی۔
سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ گرفتاری کے وقت نیب کا تفتیشی افسر بھی موجود نہیں تھا، عمران خان کو ججز گیٹس سے پہنچایا گیا، اسد عمر کو ہائی کورٹ سے گرفتار کیا گیا، عمران خان کی گرفتاری کے بعد معلوم ہوا کہ یکم مئی کو وارنٹ جاری ہوئے تھے، سیکریٹری داخلہ نے خود عدالت کو بتایا کہ وارنٹ ابھی تک عمل درآمد کے لیے نہیں موصول ہوئے۔
جسٹس اطہر نے کہا کہ نیب کئی سال سے منتخب نمائندوں کے ساتھ یہ حرکتیں کررہا ہے، وقت آگیا ہے کہ نیب کے یہ کام ختم ہوں، سیاسی قیادت سے عدالتی پیشی پر بھی اچھے ردعمل کی توقع کرتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ گرفتاری سے جو ہوا اسے رکنا چاہیے تھا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ غیر قانونی اقدام سے نظر چرائی جاسکے، ایسا فیصلہ دینا چاہتے ہیں جس کا اطلاق ہر شہری پر ہوگا، انصاف تک رسائی ہر ملزم کا حق ہے، میانوالی کی ضلعی عدالت پر آج حملہ ہواہے معلوم کریں یہ کس نے کیا ہے؟ ضلعی عدالت پر حملے کا سن کر بہت تکلیف ہوئی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا نیب کے نوٹسز کا جواب دیا گیا تھا؟ جس پر عمران خان کے وکیل نے اثبات میں جواب دیا کہ نیب نوٹسز کا جواب دیا گیا تھا، قانون کے مطابق انکوائری کی سطح پر گرفتاری نہیں ہوسکتی اور انکوائری مکمل ہونے کے بعد رپورٹ ملزم کے وکیل کو دینا لازمی ہے۔
جسٹس مظہر نے سوال کیا کہ کیا عمران خان شامل تفتیش ہوئے تھے؟ وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ عمران خان نے نوٹس کا جواب نیب کو بھجوایا تھا، نیب کا نوٹس غیر قانونی تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب وارنٹ کا نہیں تعمیل کروانے کے طریقہ کار کا اصل مسٔلہ ہے، جسٹس مظہر نے کہا کہ نیب وارنٹ تو عمران خان نے چیلنج ہی نہیں کیے تھے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قانون پر عمل کی بات سب کرتے ہیں لیکن خود عمل کوئی نہیں کرتا، سب کی خواہش ہے کہ دوسرے قانون پر عمل کرے، یہ بات واضح ہے کہ عمران خان نے نیب نوٹس پر عمل نہیں کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نیب نوٹس کا مطلب ہوتا ہے کہ متعلقہ شخص ملزم تصور ہوگا، کئی لوگ نیب نوٹس پر ہی ضمانت کرا لیتے ہیں، ریکارڈ کے مطابق عمران خان نے مارچ میں موصولہ نیب نوٹس کا جواب مئی میں دیا اس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ عمران خان کو ایک ہی نیب نوٹس ملا۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس محمد علی مظہر قانون پر عمل درآمد کی بات کر رہے ہیں، اصل معاملہ انصاف تک رسائی کے حق کا ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں اس پر جسٹس اطہر بولے کہ نیب نے کوئی سبق نہیں سیکھا، نیب پر سیاسی انجنیرنگ سمیت کئی کاموں کا الزام لگتا ہے، کیا نیب نے گرفتاری کے لیے رجسٹرار کی اجازت لی تھی؟
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ وارنٹس کی تعمیل کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا، انہوں نے عمل درآمد کروایا اس پر جسٹس اطہر نے کہا کہ کیا عدالتی کمرے میں عمل درامد وزارت داخلہ نے کیا؟ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مجھے حقائق معلوم نہیں، آج ڈیڑھ بجے ہی تعینات ہوا ہوں۔
جسٹس اطہر نے کہا کہ کیا نیب نے عدالت کے اندر گرفتار کا کہا تھا؟ عمران خان کو کتنے نوٹس جاری کیے تھے؟ اس پر نیب نے کہا کہ عمران خان کو صرف ایک نوٹس جاری کیا گیا۔ جسٹس اطہر نے کہا کہ بظاہر نیب کے وارنٹ قانون کے مطابق نہیں، کیا وارنٹ جاری ہونے کے بعد نیب نے عمران خان کی گرفتاری کی کوشش کی گئی؟
چیف جسٹس نے کہا کہ یکم کو وارنٹ جاری ہوئے اور 9 کو گرفتاری ہوئی، 8 دن تک نیب نے خود کیوں کوشش نہیں کی؟ کیا نیب عمران خان کو عدالت سے گرفتار کرنا چاہتا تھا؟ وزارت داخلہ کو 8 مئی کو خط کیوں لکھا گیا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب نے وارنٹ کی تعمیل کے لیے پنجاب حکومت کو کیوں نہیں لکھا؟ نیب نے ملک کو بہت تباہ کیا ہے۔ اس پر نیب کے افسر نے کہا کہ عمران خان کا کنڈکٹ بھی دکھیں، ماضی میں مزاحمت کرتے رہے، نیب کو جانوں کے ضیاع کا بھی خدشہ تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے بقول وارنٹ کی گرفتاری کا طریقہ وفاقی حکومت نے خود طے کیا تھا، کیا نیب کا کوئی افسر گرفتاری کے وقت موجود تھا؟ عمران خان کو گرفتار کس نے کیا تھا۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد کے مطابق انہوں نے وارنٹ کی تعمیل کرائی۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق پولیس نے وارنٹ کی تعمیل کرائی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا عدالتی حکم کے مطابق پولیس کارروائی کی نگرانی کررہی تھی؟ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ رینجرز نے پولیس کے ماتحت گرفتاری کی تھی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ رینجرز کے کتنے اہل کار گرفتاری کیلئے موجود تھے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ رینجرز اہل کار عمران خان کی سیکیورٹی کیلئے موجود تھے، نیب نے وارنٹ کی تعمیل سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے جب کہ کسی قانون کے تحت رجسٹرار سے اجازت لینے کی پاپندی نہیں تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا شیشے اور دروازے نہیں توڑے گئے؟ ضابطہ فوج داری کی دفعات 47 سے 50 تک پڑھیں، بائیو میٹرک برانچ کی اجازت کے بعد بھی شیشے نہیں توڑے جاسکتے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عمران خان کو کہیں اور گرفتار کرنا ممکن نہیں تھا، عمران خان ہر پیشی پر ہزاروں افراد کو کال دیتے تھے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو واضح ہوگیا کہ کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ شیشے توڑ کر غلط کام کیا گیا، عمران خان کی درخواست ضمانت ابھی دائر ہی نہیں ہوئی تھی اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف تک رسائی کے حق پر اٹارنی جنرل کو سنیں گے، موجودہ حکومت سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ بھی یہ کرے گی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب نے سارا الزام وفاقی حکومت پر ڈال دیا ہے اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیب نے رینجرز تعینات کرنے کی درخواست کی تھی، نیب نے 8 مئی کو درخواست کی تھی، نیب کی رینجرز تعینات کرنے کی درخواست وارنٹس پر عمل درآمد کے لیے نہیں تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملزم عدالت میں سرینڈر کردے تو احاطہ عدالت گرفتاریوں کے لیے آسان مقام بن جائے گا، ملزمان کے ذہن میں عدالتیں گرفتاری کی سہولت کار بن جائیں گے عدالتیں تو آزاد ہوتی ہیں آزاد عدلیہ کا مطلب ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں میں قتل ہوتے ہیں، ایسا ہونے دیا تو نجی تنازعات بھی عدالتوں میں ایسے ہی نمٹائے جائیں گے، بطور چیف جسٹس ہائی کورٹ ایکشن لیا۔
جسٹس اطہر نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ کیلئے دفاع کرنا مشکل ہورہا ہے، دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی بہت برا سلوک ہوا ہے، حالیہ گرفتاری سے ہر شہری متاثر ہورہا ہے، عدالت سے گرفتاری بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے، وارنٹ گرفتاری کی قانون حثیت پر رائے نہیں دینا چاہتے کیا مناسب نہیں ہوگا کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال کیا جائے؟
جسٹس اطہر نے کہا کہ کیا مناسب نہیں ہوگا عمران خان کی درخواست ضمانت پر عدالت فیصلہ کرے، ملک میں بہت کچھ ہوچکا ہے، وقت آگیا ہے کہ قانون کی حکمرانی قائم ہو، گرفتاری کو وہیں سے ریسورس کرنا ہوگا جہاں سے ہوئی تھی۔
چیف جسٹس نے درخواست کی سماعت مکمل کرلی اور آئی جی اسلام آباد کو عمران خان کو ایک گھنٹے کے اندر یعنی ساڑھے چار بجے تک عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کردیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کی پیشی پر لوگوں کو سپریم کور ٹ نہیں بلایا جائے گا، کارکنوں کو آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے پیشی کے لیے کل تک کی مہلت طلب کی جسے چیف جسٹس نے مسترد کردیا اور کہا کہ عدالت اس معاملے پر بہت سنجیدہ ہے، عدالت آج ہی مناسب حکم جاری کرے گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ احتساب عدالت عمران خان کا ریمانڈ دے چکی ہے اس پر جسٹس اطہر نے کہا کہ بنیاد غیر قانونی ہو تو عمارت قائم نہیں رہ سکتی، وقت آگیا ہے کہ مستقبل کے لیے مثال قائم کی جائے، جس انداز میں گرفتاری کی گئی برداشت نہیں کی جاسکتی۔