مشرق وسطیہفتہ کی اہم خبریں

عمر رسیدہ بائیڈن بوڑھے امریکہ کی تصویر ہے، سید حسن نصراللہ

شیعہ نیوز:حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا ہے کہ عمر رسیدہ بائیڈن، بوڑھے امریکہ کی تصویر ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ یوکرائن کی حکومت اور عوام کے ذریعے روس سے بڑی جنگ شروع کرچکا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے گذشتہ روز شام کے وقت خطے کی تازہ سیاسی صورتحال پر تقریر کی۔ انہوں نے چند قرآنی آیات کی تلاوت اور لوگوں کو عید قربان کی مبارک دیتے ہوئے اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ انہوں نے انصار اللہ یمن کے سربراہ سید عبدالمالک بدرالدین الحوثی اور یمنی عوام کو ”علماء اتحاد کونسل یمن” کے سربراہ ”علامہ عبدالسلام” کی وفات پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ساری زندگی امت مسلمہ کو درپیش مسائل خصوصاََ مسئلہ فلسطین اور قدس کا دفاع کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں خطے کے تازہ ترین مسائل پر بات کی۔ ان کی تقریر میں درج ذیل موارد موضوع گفتگو تھے۔

مشرق وسطیٰ میں نئے منصوبوں کی شکست
حزب اللہ کے سربراہ نے ”الوعد الصادق” عسکری آپریشن کی سالگرہ کے موقع پر کہا کہ تینتیس روزہ جنگ میں مزاحمت کا یہ نتیجہ نکلا کہ خطے میں ”مشرق وسطیٰ جدید” کے نام سے تمام امریکی منصوبوں پر پانی پھر گیا۔ انہوں نے کہا کہ گیارہ ستمبر کے بعد امریکہ نے ایک تو بہانے کے ساتھ افغانستان اور عراق پر قبضہ کیا اور دوسری طرف فلسطین و لبنان میں مقاومت اسلامی کو کمزور کرنے کے علاوہ ایران کو غیر مستحکم اور تنہاء کرنے کی کوشش کی، تاکہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کا بڑا بن سکے۔ لیکن لبنان و مقاومت کی ثابت قدمی اور تینتیس روزہ جنگ میں صیہونیوں کی شکست کے بعد ان کے مڈل ایسٹ کے منصوبوں کو دھچکا لگا۔ یہ سازشیں کبھی ختم نہیں ہوئیں، اس کے بعد انہوں نے اوبامہ کے زمانے میں ”بہار عرب” لانچ کر دیا، حتیٰ یہ پلاننگ بھی بیکار گئی۔

عمر رسیدہ بائیڈن بوڑھے امریکہ کی تصویر
سید حسن نصراللہ نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں امریکی صدر کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بائیڈن کے حالیہ دورے پر بہت تبصرے اور قیاس آرائیاں کی گئیں، بہت سوں نے تو ”نیٹو عربی” یا ”نیٹو مڈل ایسٹ” کے حوالے سے بھی بات شروع کر دی تھی۔ بائیڈن مقبوضہ فلسطین پہنچ چکے ہیں اور آئندہ پتہ چل جائے گا کہ نیٹو یا عربی اتحاد بن رہا ہے یا نہیں۔ حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ آج کا امریکہ پندرہ بیس سال قبل کے امریکہ سے مختلف ہے، کیونکہ موجودہ عمر رسیدہ امریکی صدر بوڑھے امریکہ کی تصویر ہیں۔ اس وقت بین الاقوامی معاملات میں امریکہ کی موجودگی کم رنگ ہوچکی ہے، جس کی اقتصادی حالت بھی خراب ہے، اجتماعی اور سکیورٹی حالت بھی دگرگون ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی صدر کے حالیہ دورے کا مقصد خلیج فارس کے ممالک کو تیل اور گیس کی برآمدات میں اضافے پر قائل کرنا ہے۔

روس سے جنگ میں بالواسطہ شرکت
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ امریکہ یوکرائنی حکومت اور عوام کے ذریعے سے روس کے خلاف ایک بڑی جنگ میں داخل ہوگیا ہے۔ جنگ کے مقاصد میں سے ایک یورپ کی جانب سے روسی گیس اور تیل پر پابندی ہے۔ امریکہ نے یورپ کی گیس پوری کرنے کی ذمے داری اپنے اوپر لے لی ہے۔ اب وقت بہت کم ہے اور سردیاں آنے والی ہیں اور یورپ کو گرمیوں میں آئندہ سردیوں کے انرجی ذخیرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بائیڈن کا دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، تاکہ امریکی صدر جان سکے کہ خلیج فارس کے ممالک کس قدر یورپ کے تیل اور گیس کی ضرورت کو پورا کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب حسن نصراللہ نے کہا کہ بائیڈن جب سے صدر بنا ہے، اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک صیہونی ہے اور صیہونی ہونے کے لئے یہودی ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے مقبوضہ فلسطین پہنچتے ہی اس نے جس دو ریاستی حل کی بات کی ہے، وہ باتوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بائیڈن کہتا ہے کہ یمن جنگ بندی میں اس نے کردار ادا کیا ہے، حالانکہ یمن پر جارحیت کا اصل محرک ہی امریکہ ہے جبکہ سعودی عرب تو ایک مہرہ ہے۔ قطر پر لگیں پابندیاں تو ہم سب کو یاد ہوں گی، جو امریکہ کی مداخلت کے سبب ایک رات میں ختم ہوگئیں تھیں، اسی طرح اگر امریکہ چاہے تو آسانی سے یمن کا مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے۔

صیہونی وزیر جنگ کو وارننگ
حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ جب ہم نے لبنان کی سمندری حدود کے بارے میں بات کی تو صیہونی وزراء بالخصوص وزیر جنگ بنی گانٹز دھمکیاں دے رہے تھے کہ ہم ایک بار پھر بیروت پر قبضہ کریں گے، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ اپنے شہریوں اور اپنے آپ سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ گانٹز کی ہمت نہیں ہے کہ محاصرے میں گھرے غزہ کی طرف بھی ایک قدم بڑھا سکے۔ اگر وہ معاملات کو آج سے بیس سال قبل دیکھ رہے ہیں تو میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ صیہونیوں کو لبنان سے تینتیس روزہ جنگ نہیں بھولنی چاہیئے، مخصوصاََ جب وہ بنت جبیل میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے مجاہدین کو شہر چھوڑنے کے لئے ایک راستہ دیا تھا، لیکن اس کے برعکس ہوا اور لبنان کے لوگوں نے اپنی سرزمین کا دفاع کیا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ تینتیس روزہ جنگ سے سبق حاصل کرنا چاہیئے کہ جنوبی لبنان کے لوگ مقاومت پسند ہیں، مقاومتی تنظیمیں اور سہولیات پہلے سے کہیں بڑھ کر ہیں، اس علاقے کے لوگ ہمیشہ مقاومت کے ساتھ ہیں، مقاومت کا جذبہ زندہ ہے اور خدا بھی ہر کام کے آغاز اور انجام میں مقاومت کا حامی ہے۔ مقاومت ہی وہ طاقت ہے، جو لبنان کے قدرتی ذخائر کے حق کو حاصل کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔

لبنان کے حقوق کے حصول کیلئے مقاومت
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ہر فرد جانتا ہے کہ تیل اور گیس کے ذخائر ہی لبنان کے بحران سے نکلنے کا واحد حل ہیں، ورلڈ بینک سے لئے گئے پیسوں سے ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ وہ تو ایک قرض ہے۔ صرف یہ اربوں ڈالر کے ذخائر ہی ہمیں بحران سے نکال سکتے ہیں۔ لبنان اسرائیل کی جانب سے تیل اور گیس نکالنے اور اسے پورپ تک پہنچانے کے راستے میں رکاوٹ حائل کرسکتا ہے، کیونکہ انہیں جلدی ہے اور اسرائیلی حکام کے پاس صرف ستمبر تک مہلت ہے کہ وہ تیل کے اخراج کے بارے میں بات کرسکیں۔ اگر ہم نے اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئے بروقت اقدام نہ کیا تو مسئلہ اور بھی گھمبیر ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ لبنان کو بجلی کے منصوبوں کی سخت ضرورت ہے اور امریکہ ہمیں مصر سے گیس لینے کے لئے ”سزار” کے قانون میں کوئی رعایت نہیں دیتا۔ ان کے وعدوں کو ایک سال گزر چکا ہے، تیل نکالنے اور سرحدیں بنانے کی کون آپ کو اجازت دے گا۔ ہوچیسٹن بھی دو وجوہات کی بنا پر خطے کا دورہ کرنے آیا تھا، ایک تو یورپ کی ضرورت پوری کرنے کے لئے گیس کی ترسیل اور دوسرا مقاومت کی دھمکیوں کی وجہ سے۔ کیونکہ وہ خشکی، سمندر اور فضا میں مقاومت کی طاقت اور دھمکیوں کے عملی ہونے سے آگاہ ہیں۔

تیل اور گیس دشمن کا کمزور نقطہ
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ دشمن کے کمزور پہلووں میں سے ایک اسرائیل سے تیل اور گیس کے ذخائر کی ضرورت ہے، جبکہ لبنان، مقاومت کی طاقت سے اس عمل کو غیر موثر اور روک سکتا ہے۔ لبنان اگر مذاکرات میں وارد ہو تو اسے اپنا فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ”مقاومت” تنہاء اس ملک کی طاقت ہے۔ میں لبنانی حکام سے کہتا ہوں کہ ”مقاومت” اس ملک کا مضبوط نقطہ ہے، اس سے فائدہ اٹھائیں۔ جب بھی امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں تو انہیں بتائیں کہ یہ لوگ مذاق نہیں کر رہے اور انہیں کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ پس لازم ہے کہ لبنان کے فطرتی حقوق وہاں کے لوگوں کو دیئے جائیں۔ اپنی تقریر کے آخر میں سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ہم اپنے دشمنوں سے کہتے ہیں کہ بالکل بھی غلطی نہ کریں، ہوچیسٹن اور امریکیوں کو بھی یہی پیغام ہے کہ لبنانیوں کو دھوکہ نہ دیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button